|

وقتِ اشاعت :   November 10 – 2015

کوئٹہ:  موسمیا تی تبدیلی سے بلوچستان شدید متاثر ہورہا ہے، زیر زمین پانی کی سطح کم سے کم ہوتی ہو تی جارہی ہے ، ماہرین کا کہنا ہے کہ آبی ذخائر کو محفوظ کرنے کیلئے فوری اقدامات نہ کئے گئے تو صوبے کی آبادی کے بڑے حصے کو دوسر ے علاقوں میں منتقل ہونا پڑے گا۔امریکی ریڈیو کی رپورٹ کے مطابق بلوچستان میں موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث بارشیں کم ہو گئی ہیں اور لوگ زیر زمین پانی پر انحصار کر رہے ہیں جس سے صوبے میں پانی کے ذخائر تیزی سے ختم ہو رہے ہیں،پاکستان کے جنوب مغربی صوبے کے سرکاری ریکارڈ کے مطابق 1920 تک صوبے کے مختلف علاقوں میں سالانہ 375 ملی میٹر بارش ہوتی تھی لیکن اب سالانہ بارش کم ہو کر صرف 140 ملی میٹر تک رہ گئی ہے جس کی وجہ سے صوبے کے تمام چشمے اور کاریز مکمل طور پرخشک ہو چکے ہیں اور لوگ ایک ہزار فٹ گہرے زیرزمین پانی کے ذخائر استعمال کر رہے ہیں۔صوبے کے 15 اضلاع میں مون سون کی بارشیں ہوتی ہیں جبکہ دیگر 17 اضلاع کے لوگ سال میں کبھی کبھی ہونے والی بارشوں پر گزارہ کرتے ہیں جو عالمی سطح پر رونما ہونے والی مو سمیاتی تبدیلیوں کے بعد بہت کم ہو گئی ہیں غیر سرکاری اندازوں کے مطابق صوبے بھر میں لگ بھگ 50 ہزار قانونی اور غیر قانونی ٹیوب ویل لگے ہوئے ہیں جو روزانہ کی بنیاد پر بڑی مقدار میں پانی نکال رہے جس کی باعث زیر زمین پانی کی سطح تیزی سے گر رہی ۔امریکی ریڈیووائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے حکومت بلوچستان کے محکمہ پبلک ہیلتھ انجینیئرنگ میں ماہر ارضیات عبدالرزاق خلجی کا کہنا ہے کہ کم بارشیں ہونے کی وجہ سے صوبہ اس وقت خشک سالی کا شکار ہے ، انہوں نے بتایا کہ لوگ زمین سے بہت زیادہ پانی نکال رہے ہیں مگر زمینی ذخائر میں دوبارہ پانی نہیں بھر اجا رہاجس کی وجہ سے پانی روز بروز کم ہوتا جارہا ہے صرف کوئٹہ کے علاقے میں دو ہزار سے زیادہ ٹیوب ویل لگے ہوئے ہیں۔ اسی طرح خضدار اور قلات پشین لورا بیسن انتہائی زیادہ متاثر ہوا ہے ان اضلاع کے بعض علاوقوں خشک سالی کے باعث لوگوں کو پینے کا پانی بھی میسر نہیں۔امر یکی ریڈیو کے رپورٹ کے مطابق قدرتی وسائل سے مالامال اس صوبے کے 32 اضلاع میں سے صرف دو اضلاع کے لوگوں کا انحصار دریائے سندھ کے پانی پر ہے جبکہ 30 اضلاع کے لوگوں کا گزر بسر بارانی یا زیر زمین پانی پر ہے۔ عبدالرزاق خلجی کا کہنا ہے کہ زیر زمین پانی کی سطح کو اوپر لانے کے لئے صوبائی حکومت نے مختلف منصوبوں پر کام کا آغاز کردیا ہے جن میں کوئٹہ کے قریبی علاقوں میں ڈیموں کی تعمیر شامل ہے ،تاہم اْن کا کہنا ہے کہ صرف ڈیموں کی تعمیر سے زیر زمین پانی کی سطح کو اوپر نہیں لایا جاسکتا بلکہ اس کے ساتھ دیگر منصوبوں پر بھی کام کرنا ہو گا۔’’اس مقصد کیلئے حکومت کو چاہیے کہ زیر زمین پانی کو دوبارہ بھرنے لیے ایک بہت وسیع پروگرام شروع کرے اور ہر برساتی نالے پر یا پہاڑ کے دامن میں زیر زمین پانی کے ذخائر دوبارہ بھرنے کے اقدامات کرے تاکہ ہم ہر بارش پر کچھ نہ کچھ پانی زیر زمین پانی کے نظام کو دے سکیں۔ماہرین اراضیات کا کہنا ہے کہ زیر زمین پانی کی سطح کو اوپر نہیں لایا گیا تو آئندہ چند سالوں میں وادی کوئٹہ اور دیگر اضلاع کے لوگوں کو یہ علاقہ چھوڑ کر کسی دوسرے علاقے میں منتقل ہونا پڑے گا،پاکستان کے ممتاز ماہر مو سمیات اور اراضیات ڈاکٹر قمر زمان کا کہنا ہے کہ بلوچستان میں پانی کی کمی کی بنیادی وجہ عالمی سطح پر ماحولیاتی تبدیلیاں اور بارشوں کا باعث بننے عوامل میں تبدیلی ہے جس کی وجہ سے بارشیں کم ہو تی جارہی ہیں بلوچستا ن ایک خشکابہ صوبہ ہے جہاں بارش پہلے بھی کم ہوتی تھی ،جو مو سمیاتی تبدیلیوں کے بعد مزید کم ہو گئی ہے اور تشویشنا ک بات یہ ہے کہ بلوچستان کے مختلف اضلاع میں صدیوں پہلے زیز زمین جمع ہونے والے ذخائر کو بیدردی اور تیزی سے نکالا جارہا ہے جو بنیادی طور ایک مجرمانہ غفلت ہے ، جس طرح سے پانی نکالا جارہا ہے اُس تیز ی سے اُس کو ری چارج نہیں کیاجارہا ایسالگتاہے کہ یہ معاملہ زیادہ عر صے تک چلنے والانہیں ہے ڈاکٹر قمر زمان نے کہا کہ کرہ ارض کہیں پے بھی پانی کے بغیر رہ نہیں جاسکتا ، زندگی کے لئے ضروری دیگر تمام چیزیں برامد کی جاسکتی ہیں لیکن پانی کو برامد کیا جاسکتانہ ہی دوسرے علاقے سے لایاجاسکتا ہے اس لئے اگر پانی ختم ہو گیا تو بلوچستان میں رہنا مشکل ہوجائے گا انہوں نے کہا کہ بلوچستان میں اس وقت جتنا پانی دستیاب ہے اس کو بہتر منصوبہ بندی کے تحت استعمال کرنا چاہیے باالخصوص زراعت کیلئے صوبے میں ایسے باغات اور فصلات لگانے اور کاشت کرنے چاہیں جن کے لئے کم سے کم پانی کی ضرورت ہو اور دوسر ی طرف ایسے اقدامات کرنے چاہیں کہ جتنا پانی نکالا جارہا ہے اتنا زیر زمین کسی طریقے سے ڈالنا بھی چاہیے انہوں نے کہا کہ ماہرین نے عالمی سطح پر پانی کی کمی کو دہش تگردی سے بڑا خطرہ قرار دے رہے ہیں اور ملک کے دیگر صوبوں کی نسبت بلوچستان اس سے سے زیادہ متاثر ہو رہا ہے ۔