|

وقتِ اشاعت :   November 10 – 2015

گوادر ایک پر امن شہر ہے اس بات کا ثبوت یہ ہے کہ ایک صدی یعنی پورے ایک سال تک گوادر میں کوئی ایک بھی جرم سرزد نہیں ہوا لیکن جس دن پاکستان کی پولیس کو امن و امان کی ذمہ داری دی گئی اسی دن پہلی چوری وہ بھی سائیکل کی چوری کا مقدمہ درج ہوا ۔ ہم اخبار نویس وہاں موجود تھے جب امن و امان پولیس کو سونپ دیا گیا تو اسی دن چوری کی واردات ہوئی ۔مقامی ماہی گیر اوربلوچ دانشور یہ کہنے لگے کہ پولیس چوروں کو اپنے ساتھ لائی ہے۔ یہ بات بھی طے ہے کہ دنیا کے کسی بھی شہر میں منظم جرائم صرف پولیس کی سرپرستی میں ہو سکتے ہیں پولیس یا حکومتی اہلکار جرائم پیشہ افراد کی سرپرستی کرتی ہے تب جا کر منظم جرائم میں اضافہ ہوتا ہے ان میں گاڑیوں کی چوری ‘ گاڑیاں چھیننا ‘ اغواء کرنا ‘ اغواء برائے تاوان ‘ رہزنی ‘ ڈاکہ ‘ شاہراہوں پر ڈاکے ‘ ایک بار سو سے زائد ڈاکوؤں نے نیشنل ہائی وے بختیار آباد کے قریب بلاک کی اور شاہراہ پر کئی گھنٹوں تک سینکڑوں ٹرکوں اور گاڑیوں کو لوٹا گیا ۔ جرائم پیشہ افراد چھوٹے سے چھوٹا گروپ بناتے ہیں تاکہ باتیں راز میں رہیں اور زیادہ سے زیادہ مال کم سے کم افرادمیں تقسیم ہو ، بڑے گینگ نہیں بناتے ۔ گوادر شہر میں پورے ایک سو سال تک کوئی جرم نہیں ہوا ۔ دہائیوں تک بلوچ خود سوئی گیس پائپ کی حفاظت کرتے رہے اس کوقومی اثاثہ تصور کیا ۔ سوئی گیس کا اتنا بڑا پلانٹ غیر محفوظ ہے ۔ بلوچوں نے کبھی بھی اس کو نشانہ نہیں بنایا حالانکہ دوسری جگہ پر راکٹ برسائے تو دلیل یہ ہے کہ بلوچ اپنے قومی اثاثوں کے سب سے بڑے محافظ ہیں ۔ انہوں نے تین ہزار سالوں سے اپنی سرزمین کا دفاع کیا ۔ اگر گوادر کو گوادر کی عوام کے فائدے کے لئے بنائیں گے تو دفاع کے لئے اس کو کسی فوج یا فوجی حکمرانوں کی ضرورت نہیں ، گوادر ان کا قومی اثاثہ ہوگا اور وہ اس کی خود حفاظت کریں گے ۔ باہر سے آنے والے اس کی حفاظت اتنی لگن کے ساتھ نہیں کریں گے جو مقامی افراد کریں گے ۔اس ساحلی پٹی پر پر تگیزیوں کو بلوچوں نے شکست دی اور آج تک یہ بلوچوں کے قبضے میں ہے ۔ اس کی زیادہ اچھی مثال قریبی چاہ بہار بندر گاہ ہے جو بلوچوں کی ملکیت ہے اور ایرانی بلوچستان میں واقع ہے ۔ وہاں ایک بہت بڑی بندر گاہ با قاعدہ کام کررہا ہے ہزاروں لوگ وہاں سے روزگار کما رہے ہیں ۔ وسط ایران کے شہروں تک کارگو چاہ بہار سے جاتی ہے ۔ سینکڑوں بڑے ٹریلر قطار میں اپنی باری کا انتظار کرتے نظر آتے ہیں ۔ اربوں روپے کا کاروبار بندر آزاد ‘ یا آزاد تجارتی علاقہ میں ہورہا ہے پورے شہر میں ایک بھی غیر مسلح سپاہی نظر نہیں آتا ، مسلح سپاہی تودور کی بات ہے۔ صرف بندر گاہ کے دروازے پر سپاہی یا سیکورٹی موجود ہے اور پورے شہر میں نہیں ہے ۔ یہ بھی بلوچوں کا شہر ہے اور گوادر سے صرف 72کلو میٹر کی دوری پر ہے جہاں پر سیکورٹی کی پابندی عوام اپنی مرضی سے کررہے ہیں اس کے نفاذ کے لئے کسی خصوصی فوجی دستے کی ضرورت نہیں ہے ۔اگر ترقی عوام کے اپنی فلاح و بہبود اور ان کی خوشحالی کے لئے ہے تو وہ اس کا خود دفاع کریں گے، چاہ بہار کی طرح کریں گے۔ اگر گوادر کو ایک نو آبادی بنانا ہے تو یہ ایک الگ بات ہے پھر تو ہر چیز کی اجازت ہونی چائیے ۔ یہ تمام سیکورٹی اقدامات گوادر کی عوام کے ساتھ امتیازی سلوک ہے ۔ صوبائی حکومت اس کی اجازت نہ دے بلکہ سیکورٹی کے مکمل انتظامات خود صوبائی حکومت سنبھالے تاکہ وہ بلوچستان کی صوبائی اسمبلی میں جوابدہ بھی ہو ۔ موجودہ نظام جو نافذ کیا جارہا ہے وہ کسی کے سامنے خصوصاًبلوچستان اسمبلی کے سامنے جوابدہ نہیں ہے۔ پہلی بات یہ ہے کہ گوادر کے باشندوں کو سیکورٹی کے بہانے محصور کیا جارہا ہے اور گوادر سے باہر رہنے والے بلوچوں کے لئے پابندیاں کہ وہ گوادر میں داخل نہیں ہو سکتے ایسا ترقی کا عمل جس میں بلوچ دشمنی کا عنصر نمایاں ہو عوام الناس قبول نہیں کریں گے ۔ پاسپورٹ ویزا لے کر کسی دوسرے ملک میں جانا آسان ہے مگر گوادر میں کسی بلوچ کا داخلہ مشکل ہوگا۔ صوبائی حکومت اس امتیازی سلوک کا نوٹس لے اور وفاقی حکومت کو ایسے عوام دشمن اقدامات اٹھانے سے باز رکھے ۔ ان تمام اقدامات سے گوادر میں ایک دھیلے کی سرمایہ کاری نہیں ہوگی، گوادر میں کرفیو کا ماحول دیکھ کر سرمایہ کار پاکستان کا رخ نہیں کریں گے۔ پہلے تو کوئی ملکی سرمایہ کار گوادر میں سرمایہ کاری نہیں کرے گا اور بیرونی سرمایہ کار اسلام آباد ‘ لاہور ‘ کراچی نہیں آرہے ہیں تو وہ گوادر کیونکر آئیں گے۔