|

وقتِ اشاعت :   November 12 – 2015

تقریباً 13سال بعد ایک خبر آئی ہے کہ حکومت بلوچستان دو ہزار ایکڑ زائد زمین چینی کمپنی کے حوالے کررہی ہے تاکہ وہاں پر چاہ بہار کی طرز پر آزاد تجارتی علاقہ بنایا جائے ۔ یہ ایک بڑی پیش رفت ہے اس میں حکومت پاکستان کا کوئی کارنامہ نہیں یہ زمین حکومت بلوچستان چینی کمپنی کو تعمیرات اور کارخانوں کے قیام کے لئے دے رہی ہے ۔ کارخانے اور تجارتی ادارے ریگستان میں نہیں بنتے ، اس کیلئے بنیادی ڈھانچے کی ضرورت ہوتی ہے ۔ اس میں پانی ‘ بجلی ‘ سڑکیں اور دوسری تمام ضروریات زندگی کارخانوں میں کام کرنے والوں کے لئے ضروری ہوتے ہیں ۔ گزشتہ 68سالوں میںیہ سب کچھ تعمیر نہ ہو سکا ۔ مقامی لوگوں کو گھریلو استعمال کے لئے پینے کا پانی ‘ بجلی ‘ سڑکیں ‘ سیوریج کا نظام تو نہ مل سکا اور نہ ہی کسی بھی حکومت نے ان سہولیات کی فراہمی میں کسی قسم کی سرگرمی دکھائی ۔ آج تک سیوریج کا نظام قائم نہ ہوسکا بلکہ پانی بھی پاکستان نیوی کے ٹینکرز کراچی سے بھرکر گوادر لائے اور لوگوں کو پینے کے لیے دیا ۔ اعتراض یہ ہے کہ حکومت نے 2002سے لے کر 2015ء تک وقت اور وسائل ضائع کیے اور جان بوجھ کر گوادر کے عوام کو عذاب میں رکھا ۔ نیس پاک ‘ ایک سرکاری ادارے کا ڈیم ناکارہ ہوگیا ۔ ڈیم دس سال کے اندر ریت سے بھر گیا اور اس میں پانی جمع کرنے کی گنجائش باقی نہیں رہی ۔ چین کے شہر چن دو میں ایک ڈیم گزشتہ ڈھائی ہزار سال سے کامیابی کے ساتھ کام کررہا ہے اور اس میں ریت نہیں ہے۔ ہم نے پوچھا وجہ کیا ہے تو چینی اہلکار نے بتایا کہ اس کی سالانہ صفائی ہوتی ہے ۔ اس سے ریت نکال لیا جاتا ہے تاکہ اس میں پانی جمع کرنے کی صلاحیت کم نہ ہو ۔ ادھر آکڑہ کور ڈیم کی کبھی صفائی نہیں کی گئی۔ ہونا تویہ چائیے تھا کہ درجنوں بلڈوزر اور ٹریکٹر ڈیم سے ریت کی صفائی کاکام کرتے اور اس میں پانی جمع کرنے کی صلاحیت کو بڑھاتے تو گوادر کے لوگوں کو کم سے کم پینے کا پانی ملتا۔ لوگوں کو پریشانی نہیں ہوتی ۔ نیوی کے ٹینکر پانی کراچی سے نہیں لاتے ۔ دوسری طرف بجلی بھی نہیں ہے ۔ حکومت نے درجنوں بجلی گھر تعمیر کر نے کیلئے پنجاب کے اضلاع کو چنا ہے ۔ مگر گوادر جو اس خطے کی بہت بڑی بندر گاہ ہوگی وہاں بجلی گھر تعمیر نہیں کیا گیا اور ایران سے بجلی خریدنے کی بات کی جاتی ہے لیکن آج تک اس کی تیاری نہیں کی گئی ۔ ٹرانسمیشن لائن آج تک تعمیر نہیں ہوسکی نہ ہی حکومت نے اس کے لئے رقم مختص کی ہے ادھر بلوچستان حکومت نے اپنے ذرائع سے نوکنڈی کی ٹرانسمیشن لائن کے لیے15کروڑ روپے مختص کیے ہیں ۔ کام آج تک کیسکو شروع نہ کرسکا وزیراعلیٰ بلوچستان کیسکو پر کرپشن اور نا اہلی کے الزامات لگاتے ہیں کہ نوکنڈی ٹرانسمیشن لائن تعمیر نہ ہو سکی ۔ جہاں تک چین کو زمین دینے کی بات ہے وہ تو اچھی بات ہے ۔ اس میں ترقیاتی کام کی ابتداء کتنے سالوں میں ہوگی اور اس کی مکمل تعمیرات کئی دہائیوں بعد ہوگا۔ خود گوادر کی بندر گاہ پر صرف تین برتھ تعمیر کرکے کام ادھورا چھوڑ دیا گیا ۔ کوئی نہیں جانتا کہ یہ کب مکمل ہوگا کم سے کم اس کو ایک صدی درکار ہوگی کیونکہ گزشتہ 13سالوں میں گوادر پورٹ کی ترقی کے لیے کوئی رقم نہیں رکھی گئی ۔ گوادر شہر میں بین الاقوامی ائر پورٹ پر بھی کوئی کام نہیں ہورہا ہے ۔ اس کی تعمیر بندر گاہ کے ساتھ ساتھ 2002ء میں شروع ہونی تھی ابھی تک یہ کام شروع نہیں ہوا ۔ اس کے لئے رقم تک مختص نہیں ہوئی البتہ گوادر بندر گاہ میں ریلوے یارڈ کی تعمیر کے لئے زمین خریدنی ہے جس کیلئے رقم اس بجٹ میں مختص کی گئی ہے مگر زمین خریدنے کاکام بھی شروع نہیں ہوا ۔ حالانکہ یہ واحد کام ہے جو افسران کے فائدے کے لئے ہے جس میں رشوت کے طورپر بڑی رقم کی توقع کی جا سکتی ہے ۔ کسی بھی چیز کی خرید و فروخت میں نوکر شاہی کو زبردست مہارت حاصل ہے مگر زمین ہی نہیں خریدی جاری ہے کہ گوادر پورٹ کے لئے ریلوے یارڈ تعمیر کی جائے ۔