گزشتہ دنوںآرمی چیف جنرل راحیل شریف کی زیر صدارت کور کمانڈرز اجلاس کے بعد آئی ایس پی آر کی طرف سے جاری ہونے والے بیان میں کہا گیا ہے کہ ملک میں دہشت گردی کے خاتمہ کے لیے جاری آپریشن کے نتائج حاصل کرنے اور ملک میں قیام امن کے لیے ضروری ہے کہ حکومت انتظامی امور کو بہتر کرے۔اس چھوٹی سے خبر نے سیاسی ایوانوں میں جہاں ہلچل مچادی ہے ۔ یہ بحث اب سوشل میڈیا پر بھی زور پکڑتی جارہی ہے کہ اس بیان کا مقصد کیا ہے؟ اگر دیکھاجائے تو موجودہ دور حکومت میں جتنی شہرت سیاست کے ایوانوں میں بیٹھے عوامی نمائندوں کونہیں ملی جتنی آرمی چیف جنرل راحیل شریف کے حصہ میں آئی، جس میں خاص کر پشاور واقعہ کے بعد شدت پسندوں کے خلاف فوری آپریشن کا فیصلہ ‘کراچی میں جاری ٹارگٹ کلنگ سمیت دیگر ایسے اقدامات شاید جنہیں سیاسی حلقوں میں زیادہ پسند نہیں کیا گیا مگر کم و بیش عوامی حلقوں میں اس کو بہت زیادہ پذیرائی ملی، جس کی مثال ذرائع ابلاغ میں آئے روز جنرل راحیل شریف سے منسوب بیانات ہیں جن میں دہشت گردوں کے خلاف کامیاب آپریشن پر خراج تحسین شامل ہے۔ ماضی پر اگر نظر دوڑائی جائے تو شاید ہی کسی آرمی چیف کواتنی مقبولیت ملی ہو۔ پرویزمشرف اپنے دور میں جب شہرت کے بام عروج پر تھے اور جب حکومت سنبھالی تو اُس وقت انہیں تھوڑی بہت شہرت ملی مگر صوبہ بلوچستان کے متعلق اٹھائے گئے اقدامات کے باعث انہیں اب کوئی اچھے لفظوں میں یاد نہیں کرتا۔ مگر بنیادی سوال یہ اٹھتا ہے کہ جمہوریت کی ریل جب پٹڑی پر چلنے لگتی ہے تو کچھ عرصے بعد اسے بریک لگ جاتی ہے‘اس کے بنیادی اسباب کیاہیں‘ اس بات سے کوئی بھی ذی شعور انسان انکار نہیں کرسکتا کہ ملک میں حقیقی جمہوریت لانے والوں کو ہمیشہ جیل بھیجاگیا اور ان پر سیاسی پابندیاں لگائی گئیں جس میں خاص کر 1970ء کے جنرل الیکشن میں ملک کے نامور ،ذہین اور دانشور لیڈروں نے بھاری اکثریت سے کامیابی حاصل کی مگر انہیں سیکولر‘لبرل،کمیونسٹ کے القابات کے ذریعے لادین ظاہر کرنے کی کوشش کی گئی اور پھر جمہوریت کی اس مضبوطی کے دورمیں جہاں ذوالفقار علی بھٹو کو اپنا جمہوری کردار ادا کرناچاہیے تھا مگر شومئی قسمت کہ انہوں نے بلوچستان میں نیپ کی حکومت کا خاتمہ کرکے گورنر راج نافذ کیا اور سقوط ڈھاکہ رونما ہوا۔ اگر اسی دور حکومت کو چلنے دیا جاتا تو شاید آج ملک کی تمام قومی وحدتوں میں پائی جانے والی بے چینی کا خاتمہ ہوجاتا‘ آج بھی ملک میں مجموعی طور پر اس قدر حالات بہتر نہیں ہیں جس کا ڈھول ہم پیٹتے ہیں‘ آج بھی ملک میں ناخواندگی ،بے روزگاری سمیت تمام مسائل موجود ہیں جس سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ بات ہورہی تھی جنرل راحیل شریف کے حوالے سے کیا واقعی ایسا کچھ ہونے جارہاہے جس کا دبے لفظوں میں خدشہ ظاہرکیاجارہا ہے‘ خدانخواستہ اگر ایسا کچھ ہوا تو یقیناًاس سے جنرل راحیل شریف کی شہرت میں کمی آئے گی اور فوج کے حوالے سے گزشتہ چند دہائیوں میں جو تاثر تھاوہ پھر تازہ ہوجائے گا۔ یہ بھی ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ ملک میں جمہوری اداروں کی مضبوطی کے حوالے سے اب بھی سیاسی جماعتوں میں کوئی خاص پختگی نہیں پائی جاتی جس کی امید عوام کو ہے‘ سیاستدانوں کے آپسی اختلافات اور ذاتی مفادات آج بھی ان کی ترجیحات میں اولین حیثیت رکھتے ہیں جس کی وجہ سے موجودہ سیاسی شخصیات کی شہرت میں کوئی خاص اضافہ نہیں ہوا ہے اور نہ ہی عوام کے بنیادی مسائل حل ہوئے ہیں جس کی وجہ سے آرمی چیف جنرل راحیل شریف اُ ن سے بازی لے گیا ہے۔ اگر واقعی سیاسی جماعتیں جمہوریت کے حُسن کی جس طرح تشریح کرتے ہیں اور اس خوبصورت دلکش نعرے کا جو وہ بھرپور فائدہ اٹھاتے ہیں اگر ان کو جمہوریت واقعی عزیز ہے تو سول اداروں میں اقرباء پروری، سفارشی کلچر، حقیقی معنوں میں یہاں کے دیرینہ مسائل کو حل کرنے میں سنجیدگی سے اقدا مات اٹھاتے تو انہیں چھوٹی سی خبر سے ڈر نہیں لگتا۔ اگر یہی روش جاری رہی تو اس طرح کے بیانات روز ایک بھوت کی طرح سر پر منڈلاتے رہینگے اور ایوان میں بیٹھے حکمران یہی راگ الاپتے رہینگے کہ تمام ادارے اپنی حدود میں رہ کر کام کررہے ہیں یا کام کریں مگر یہ خوف طاری ہی رہے گا۔
اقتدار کی نہیں جمہور کی قدر کرو ……؟
وقتِ اشاعت : November 14 – 2015