پاکستانی فوج کے ترجمان کا کہنا ہے کہ افغانستان میں مصالحتی عمل کابل سے معلومات ’لیک‘ ہونے کی وجہ سے منقطع ہوا تھا۔یہ پہلی مرتبہ ہے کہ پاکستان نے افغانستان کی حکومت اور طالبان کے درمیان اس سال جولائی میں چین اور بعد میں سیاحتی مرکز مری میں ہونے والے مذاکرات کے ختم ہونے کے لیے افغان حکام کو ذمہ دار ٹھہرایا ہے۔معلومات ’لیک‘ سے ان کی مراد افغان طالبان کے سربراہ ملا محمد عمر کی ہلاکت کی خبر سے ہے جس نے اس مصالحتی عمل کو معطل کر دیا تھا۔جنرل باجوہ کا کہنا تھا کہ ’ہمیشہ سب سے بڑا مسئلہ معلومات کا کابل سے سامنے آ جانا رہا ہے۔ یہ بہت افسوس کی بات ہے کہ اتنا بڑا عمل شروع کیا گیا اور اس کا ایک راؤنڈ مکمل ہو گیا۔ دوسرے راؤنڈ سے ایک دو روز قبل یہ معلومات عیاں کر دی گئیں لہٰذا اس عمل کو خراب کرنے والے موجود ہیں۔ جنرل باجوہ کا کہنا تھا کہ وہ یہ ہمیشہ کہتے رہے ہیں کہ اس طرح کے لوگوں کو قابو میں رکھنا ہے تاکہ ’اس عمل جس سے اس خطے میں امن آ جائے گا وہ آگے چل سکے۔پاکستان فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف پانچ روزہ سرکاری دورے پر امریکہ پہنچے ہیں۔ وہ اعلیٰ امریکی فوجی اور سول حکام سے ملاقاتیں کریں گے۔ سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ موجودہ حالات ماضی کی نسبت زیادہ خراب ہیں جہاں خطے کے ارد گرد سمیت یورپ کے دل پیرس میں رونما ہونے والے سانحہ نے پوری عالمی برادری کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے۔پاکستان افغانستان بھارت کے درمیان ان حالات میں کشیدگی کو کم کرنے کی زیادہ ضرورت ہے کیونکہ جس طرح شدت پسند گروہ متحرک ہوچکے ہیں اور مختلف ممالک میں وہ کارروائیاں کررہے ہیں اس سے ہمارے خطے پر بھی منفی اثرات پڑیں گے کیونکہ ماضی میں جتنے بھی واقعات رونما ہوئے تھے اس دوران خطے میں اتنی بڑی کشیدگی موجود نہیں تھی اور ہمسایہ ممالک کے درمیان کسی حد تک ہم آہنگی بھی موجود تھی مگر اب حالات اس کے برعکس ہیں جو تینوں ممالک کے مفادات میں نہیں ہے۔ اگر ان حالات میں بھی کشیدگی برقرار رہی اور شدت پسند گروہ اسی طرح اپنی کارروائیاں جاری رکھتے رہے تو اس کے اثرات یہاں پر بھی برائے راست پڑینگے کیونکہ پاکستان پہلے سے دہشت گردی کے خلاف جنگ سے نبرد آزما ہے اور آپریشن ضرب عضب میں مصروف ہے اس دوران سیاسی و عسکری قیادت کو سوچ سمجھ کر ہمسایہ ممالک کے ساتھ بہترین تعلقات کیلئے جامہ پالیسی مرتب کرنی ہوگی اور ہمسایہ ممالک کی بھی سب سے بڑی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ ان حالات کو مد نظر رکھتے ہوئے خطے میں کشیدگی کو کم کرنے کیلئے ایک بہترین پالیسی اپنائے تاکہ آنے والے چیلنجز سے ملکر نمٹا جاسکے وگر نہ جو حالیہ سانحہ پیرس میں رونما ہوا وہ کسی بھی وقت اس خطے کے کسی بھی ممالک میں ہوسکتا ہے جو اس کے متحمل نہیں ہوسکتا۔ پاک آرمی کے سربراہ جنرل راحیل شریف بھی اپنے دورہ کے دوران عالمی برادری کو موجودہ شدت پسندوں کے خلاف آپریشن کے متعلق آگاہی سمیت خطے میں امن کیلئے بہترین پالیسی اپنانے کیلئے زور دیں تاکہ اس خطے کو شدت پسندی سے بچایا جاسکے۔