گزشتہ روز آب گم کے مقام پر ریلوے کی بگھیاں الٹنے کے باعث قیمتی جانیں ضائع ہوئیں اور جس میں متعدد افراد زخمی بھی ہوئے۔ یہ واقعہ اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ صوبے میں ریلوے نظام صدیوں پرانا ہے، مگر اس کی نسبت دیگر صوبوں میں بہترین ریلوے نظام متعارف کرائے جارہے ہیں اور وہاں کی شہریوں کو ہر قسم کی سہولیات فراہم کی جارہی ہیں۔ مگر بلوچستان میں آج بھی شاہراہیں تک اس قدر خستہ ہیں کہ بیان سے باہرالبتہ یہ ضرور ہے جو ایک المیہ ہے‘ بلوچستان جو آج کل معاشی ترقی کیلئے اہم کردار ادا کرنے کی شہ سرخیوں میں نظر آرہا ہے سیاسی اور عوامی حلقوں میں زیر بحث ہے ‘ جس سے صوبے سمیت ملک کی خوشحالی کے بلند وبانگ دعوے کیے جارہے ہیں مگر آج بھی بلوچستان بنیادی سہولیات سے محروم صوبہ ہے، یہاں کے عوام کو روز خوش کن نعروں کے ذریعے بہلایا جاتا ہے کہ بلوچستان معدنی وسائل سے مالامال خطہ ہے مگر ان وسائل سے بلوچستان میں کتنے ترقیاتی کام کیے گئے جس کا برائے راست فائدہ عوام کو ملا ہے زمینی حقائق بلوچستان کے کچھ اور جب کہ اس کی ترقی کے نعرے کچھ اور حقیقت پیش کرتے ہیں۔ حال ہی میں پاک چین اقتصادی راہداری پر سب فخریہ انداز میں اس بات کا اظہار کرتے ہیں کہ چین کی بڑی سرمایہ کاری سے ملک میں ترقی کے نئے دور کا آغاز ہوگا‘ مگر اس کی بنیاد جس جگہ سے شروع ہورہی ہے وہ گوادر ہے جو بلوچستان کا ساحلی پٹی ہے گوادر میں بھی لوگ بنیادی سہولیات سے محروم ہیں صوبے کے دیگر علاقوں کا اندازہ گوادر کی ترقی سے ہی لگایا جاسکتا ہے۔ آج لاہور، اسلام آباد، ملتان، کراچی، پشاور میں زوروں سے ترقیاتی کام ہورہے ہیں جہاں نئی شاہراہیں تعمیر کی جارہی ہیں جہاں ریلوے کے بہترین نظام کو متعارف کیاجارہا ہے مگر بلوچستان کے ساتھ وہی 67 سالہ سوتیلی ماں جیسا سلوک جاری ہے‘ جس کا اعتراف وقتاََفوقتاََ بلوچستان کے عوامی نمائندے ایوانوں میں کرتے ہیں شاید ان کی پُرجوش تقاریر کا اثر ایوان میں بیٹھے بڑے بھائیوں کے کانوں اور دماغ پر اثر نہیں کرتی جس کا خمیازہ آج یہاں کے عوام کو بھگتنا پڑرہا ہے۔ اگر واقعی ملک کی ترقی بلوچستان سے جڑی ہے تو پھر بلوچستان کو یکسر ہر شعبے میں کیونکر نظرانداز کیاجارہا ہے‘ جس کا سلسلہ ایک طویل عرصے سے جاری ہے‘ بلوچستان میں پسماندگی کے باعث سیاسی مسائل جنم لیتے ہیں مگر بڑے ایوان پر بیٹھے سربراہان صرف طفل تسلی دے کر یہی کہتے ہیں کہ فلاں منصوبے کے بعد بلوچستان ترقی کی راہ پر گامزن ہوگا‘پاک چین اقتصادی راہداری کے بعد یہاں تمام مسائل حل ہوجائینگے اور بلوچستان دیگر صوبوں کے مقابلے میں آئے گا۔ موجودہ وفاقی حکومت کوئی ایک ایسی مثال پیش کرسکتا ہے کہ جنہوں نے بلوچستان میں ترقیاتی کاموں بڑا جال بچھایا ہو جس سے صوبے کے عوام کو اس کا فائدہ ملا‘ افسوس کہ یہاں ریکوڈک،سیندک جیسے بڑے بڑے پروجیکٹ چلنے کے باوجود بھی یہاں کے عوام اس سے فائدہ حاصل نہیں کرسکے البتہ دیگر صوبے بھرپورطریقے سے فائدہ اٹھاتے رہے ہیں اور آج بھی پاک چین اقتصادی راہداری پر جتنے دعوے کیے جائے رہے ہیں اس کا فائدہ بھی شاید بلوچستان کے عوام کو نہ مل سکے‘ اگر بلوچستان کو کچھ دینا ہی ہے توپالیسی ساز ادارے بلوچستان کے عوام کے بنیادی مسائل ہی حل کرلیں تاکہ اُن میں موجود بے چینی دور ہوسکے‘ آب گم واقعہ اس کی غماز ہے کہ بلوچستان میں ریلوے ٹریک انگریزوں کے زمانے کے ہیں جنہیں آج تک جدید طرز پر توکجا ان کو ٹھیک کرنے کیلئے بھی اقدامات نہیں اٹھائے گئے۔ اگر واقعی بلوچستان ملک کی ترقی میں اہم کردار ادا کرنے جارہا ہے تو یہاں کے عوام کو سہولیات میسر کیاجائے کم ازکم ان کی قیمتی جانیں ضائع نہ ہوں ‘وگرنہ ان خوش کن نعروں اور بلند وبانگ دعوؤں کے بعد بھی ایسے واقعات آگے چل کر پھر رونما ہوسکتے ہیں‘ جس پر صرف یہاں کے عوام ماتم کرینگے اور ایوان بالا میں فاتحہ خوانی کی جائے گی۔
صوبے میں ریلوے نظام اور آب گم سانحہ!
وقتِ اشاعت : November 17 – 2015