مسلم لیگ ن کے وفاقی وزیر پرویز رشید کا کہنا ہے کہ اقتصادی راہداری سے خطے کے اربوں لوگوں کی تقدیر بدلے گی اور یہ گیم چینجرکا کردار ادا کرے گی ۔اس قسم کے بیانات مسلسل وفاق کی جانب سے سامنے آرہے ہیں‘ خدا کرے کہ ایسا ہی ہو‘اگر خطے کے اربوں لوگوں کیلئے نہ سہی کم ازکم اقتصادی راہداری بلوچستان کے مظلوم عوام کی تقدیر بدل دے تو کم ازکم بلوچستان پسماندگی کے دلدل سے نکل جائے گا جس کا انتظار وہ گزشتہ67 سالوں سے کررہے ہیں۔ گیس بلوچستان سے نکلی مگر صنعتیں پنجاب میں لگیں۔ آج بھی بلوچستان کے بیشتر علاقے گیس سے محروم ہیں المیہ یہ ہے کہ ڈیرہ بگٹی کے علاقے سے سوئی کے عوام تک اس سے استفادہ نہیں کررہے ‘ریکوڈک پر کام تو ہوا مگر اس کا فائدہ کس نے اٹھایا یہ بھی ڈھکی چھپی بات نہیں‘ سیندھک پروجیکٹ میں کیا ہورہا ہے‘ کون مال مفت دل بے رحم سمجھ کر لے جارہا ہے اس بارے کوئی بھی لب کشائی کرنے کیلئے تیار نہیں‘ گوادر کا جتنا شوشا،ن لیگ کی ماضی کی حکومت اور مشرف دور میں ہوا، زمین پر اس ثبوت دکھائی نہیں دیتے۔ بلوچستان کے عوام کسی خوش فہمی کا شکار نہیں کیونکہ گوادر میں سیکورٹی کے نام پر جو کچھ وہاں کے مقامی باشندوں کے ساتھ ہورہا ہے، وہ آنے والے حالات کی بخوبی منظر کشی کررہا ہے کہ گوادر کن کے لیے بن رہا ہے ، وہاں کس نے رہنا ہے اور کس کو دیس نکالے کا دکھ سہنا ہے۔ گوادر کی حالت زار آج بھی سب کے سامنے ہے‘ کوسٹل ہائی وے بناکر جس طرح کے احسانات پر مبنی بیانات دئیے گئے جیسا کہ یہ ہائی وے یہاں کے لوگوں کیلئے حکام نے اپنے ذاتی اخراجات سے بنائے ہوں۔ آج ایک بار پھر ماضی کو دہرایا جارہا ہے اقتصادی راہداری کے نام پر کہ بلوچستان میں دودھ اور شہد کی نہریں بہیں گیں۔رن وے‘ صنعتی زون‘بجلی گھر‘ بڑی بڑی شاہراہیں بنائی جائینگی جس سے بلوچستان میں پسماندگی کا خاتمہ ہوگا‘مگر اب تک زمینی حقائق اس کے برعکس دکھائی دے رہے ہیں‘اقتصادی روٹ پر بلوچستان میں کتنے ترقیاتی منصوبوں کا آغاز ہوچکا ہے وہ یہاں کے عوامی نمائندوں تک کو دکھائی نہیں دے رہا جس کا وہ برملا اظہار اسمبلی فلورپر کرتے ہیں جس سے اپوزیشن اراکین کے ساتھ ساتھ حکومتی ارکان بھی مطمئن دکھائی نہیں دے رہے تو عوام کس طرح مطمئن ہونگے۔ شاید بلوچستان کے تمام منصوبے فی الوقت خلاء میں تعمیر ہورہے ہیں جواچانک کسی روزگوادر میں اتار دئیے جائیں گے ۔ کاش موجودہ حکومت ذمہ داری سے کام لیتے ہوئے ماضی کی غلطیوں کو دہرانے سے گریز کرے اور زمینی حقائق کے مطابق بلند وبانگ دعوے کرے تاکہ یہاں کے عوام مزید مایوسی کا شکار نہ ہوں۔ مغربی روٹ پر کتنا کام ہوا‘ بلوچستان میں یہ تاثر عام ہوچکا ہے کہ اقتصادی راہداری سے صرف پنجاب کو فائدہ ہو گا ، اسی طرح خیبرپختونخواہ اور سندھ بھی مطمئن دکھائی نہیں دے رہے۔ بہرحال جس قسم کے بیانات وفاق کی جانب سے سامنے آرہے ہیں اُس سے بلوچستان کے سیاسی اور عوامی حلقے کسی طور مطمئن نہیں ہیں‘ بڑے ایوان میں بیٹھے ذمہ دار شخصیات سچ پر مبنی بات کریں توبہتر ہے کیونکہ زمینی حقائق آج بھی کچھ اور ہیں‘ ماضی میں جو کچھ بلوچستان کے ساتھ کیا گیا آج وہ اس کا متحمل نہیں ہوسکتا‘ وفاقی وزراء پہلے صوبے میں اپنے ہی اراکین کو مطمئن کریں تاکہ وہ اسمبلی فلور میں فخریہ طور پر یہ کہہ سکیں کہ اقتصادی راہداری پر بلوچستان کے عوامی نمائندوں اور یہاں کے غریب عوام کو دھوکہ میں نہیں رکھا جارہا‘خدارا بلوچستان کے ساتھ کم ازکم اب تو ظلم کا سلسلہ ختم کیاجائے ،اس مالا مال خطے کے عوام کو ترقی کی دوڑ میں شامل کیا جائے ۔اب تک بلوچستان میں جتنے پروجیکٹس پر کام ہوا ہے اس کا فائدہ دیگر صوبوں نے اٹھایا ہے مگر بلوچستان کے حصہ میں صرف خوش کن بیانات ‘تقاریراور نعرے آئے ہیں ‘اقتصادی راہداری سے بلوچستان کی ترقی کا واویلہ کم اور زمین پردکھائی دینے والے کام کی زیادہ ضرورت ہے تاکہ اقتصادی راہداری متنازعہ نہ بن جائے ۔ اگر اسے مزید متنازعہ بنایا گیا تو اس کی ذمہ دار موجودہ مسلم لیگ ن کی حکومت ہوگی نہ کہ یہاں کے سیاسی و عوامی حلقے ۔اقتصادی راہداری سے اربوں لوگوں کی تقدیر بدلنے کے خوشکن اور سنہرے خواب دکھانے دینے کی ضرورت نہیں جتنا کہ اس پر تیزی سے کام کرنے کی ہے جو آگے چل کر خوشگوار تاثر دے سکے۔
اقتصادی راہداری ۔۔۔ بلوچ کہاں ہیں؟
وقتِ اشاعت : November 18 – 2015