|

وقتِ اشاعت :   November 25 – 2015

کوئٹہ:  بی این پی مینگل کے سربراہ سردار اختر جان مینگل نے کہا ہے کہ بلوچستان کی محرومی اب مایوسی میں بدل چکی ہے، ہتھیار ڈالنے والوں کو پیسے دیے جارہے ہیں،جب تک مقتدرہ قوتوں کا مائنڈ سیٹ تبدیل نہیں ہوگا حالات میں بہتری نہیں آئے گی اور نہ ہی مذاکراتی عمل آگے بڑھے گا۔ وزیرداخلہ میرسرفراز بگٹی کا کہنا ہے کہ بھارت ودیگر ممالک سے مدد مانگنے والے ریاست کے خلاف ہیں، حیربیار مری اور براہمداغ بگٹی مذاکرات کیلئے سنجیدہ نہیں ہیں‘ ہتھیارڈالنے والوں کو پیسے نہیں دیے جارہے اب بھی مذاکرات کی سنجیدہ کوششیں جاری ہیں، بلوچ ری پبلکن پارٹی نام کی کوئی جماعت پاکستان میں رجسٹرڈ نہیں ہے۔ ان خیالات کااظہار انہوں نے نجی ٹی وی کے پروگرام کے دوران کیا۔ سردار اخترجان مینگل نے کہاکہ جن کو جمہوریت کے قائد کہا جاتا تھا ان کو ہی غدار کے القابات سے نوازا گیا اور ان پر قتل کے مقدمات بھی درج کیے گئے، انہوں نے کہاکہ وزیراعلیٰ بلوچستان کے پاس فیصلہ کرنے کے اختیارات نہیں، فیصلہ یہاں کی مقتدرہ قوتیں کرتی ہیں، انہوں نے کہاکہ پہاڑوں پر لوگ شوق سے نہیں جاتے ظلم وزیادتی جب بڑھتی ہے تو لوگ اس راستے کا چناؤ کرتے ہیں۔ سردار اخترجان مینگل نے کہاکہ ہتھیار ڈالنے والوں کو پیسے دیے جارہے ہیں یا کسی بھی طرح انہیں واپس بلایا جارہا ہے مگر بنیادی مسئلہ آج بھی اپنی جگہ موجود ہے بلوچستان میں سیاسی بات چیت کو سنجیدگی کے ساتھ آگے نہیں بڑھایاجارہا اگر سنجیدگی ہوتی تو لوگ پہاڑوں پر نہ جاتے، اصل مسئلہ مقتدرہ قوتوں کے مائنڈ سیٹ کی تبدیلی کا ہے جب تک یہ ٹھیک نہیں ہوگا حالات میں بہتری نہیں آئے گی۔ صوبائی وزیر داخلہ میرسرفراز بگٹی کا کہنا تھا کہ وزیراعلیٰ بلوچستان اور جنرل عبدالقادر کو اسٹیبلشمنٹ سمیت سب کا مینڈیٹ حاصل تھا اس لیے نوابزادہ براہمداغ بگٹی سے مذاکرات کیلئے گئے تھے‘ انہوں نے کہاکہ نوابزادہ حیربیار مری اور نوابزادہ براہمداغ بگٹی مذاکرات کرنے کیلئے سنجیدہ نہیں ہیں کیونکہ وہ کبھی بھارت ودیگر ممالک سے مدد کی بات کرتے ہیں یہ ریاست کے خلاف عمل ہے مگر ہم پھر بھی کوشش کررہے ہیں کہ صوبے کے معاملات کو مذاکرات کے ذریعے حل کریں۔ ان کا کہنا تھا کہ بندوق اور مذاکرات ایک ساتھ نہیں چل سکتے،دہشت گردی مذہب کے نا م پر ہو یا قوم کے ہم دونوں کو ایک ہی نظر سے دیکھتے ہیں، ناراض بلوچ کا لفظ اُس وقت استعمال کیا جاسکتا ہے جب ناراض بلوچ ملک کے آئین میں رہ کر اپنی جدوجہد کریں اگر بندوق کی نوک پر بات کرینگے تو ہم انہیں ناراض بلوچ نہیں سمجھتے۔ انہوں نے ایک سوال کے جواب میں کہاکہ لاپتہ افراد کتنے ہیں یہ خود ایک ابہام ہیں اس پر فی الفور کچھ نہیں کہا جاسکتا ، انہوں نے کہاکہ بلوچستان میں سوفیصد امن قائم کرنے کا دعویٰ نہیں کرتے مگر ماضی کی نسبت اب حالات بہتری کی طرف جارہے ہیں۔