|

وقتِ اشاعت :   November 25 – 2015

ترکی کے ایف 16لڑاکا طیاروں نے روس کے ایس یو 24جنگی جہازکو شام کے سرحد کے اندر مار گرایا ۔ یہ طیارہ ترکی کی فضائی حدود میں داخل نہیں ہوا تھا کہ پہلے ہی مار گرایا گیا۔ روس کا دعویٰ ہے کہ پائلٹ نے کسی کو نہ دھمکی دی اور نہ ہی کسی پر حملہ کا ارادہ کیا ۔ دوسری جانب ترکی کی جانب سے کہا گیا ہے کہ طیارے کے پائلٹ کو پانچ منٹ میں دس بار وارننگ دی گئی تھی اور اس کے بعد ایف 16طیاروں نے فضاء سے فضاء میں مار گرانے والے میزائل استعمال کیے ۔ روسی جہاز چار کلو میٹر شام کے سرحد کے اندر گر کر تباہ ہوگیا ۔ دونوں پائلٹ کے متعلق ترکی کا دعویٰ تھا کہ دونوں زندہ ہیں شاید ان میں سے ایک زخمی حالت میں ہے ۔ شام کی پیچیدہ صورت حال کے پیش نظر حالات زیادہ کشیدہ ہیں اس واقعہ کے بعد ترکی اور روس کے درمیان کشیدگی میں اضافہ ہوگیاہے سب سے پہلے روسی وزیر خارجہ لاروف نے اپنا انقرہ کا موجودہ دورہ منسوخ کردیا ۔ وہ بدھ کے دن ترکی کے دورے پر آنے والے تھے ۔ ان کو وزارت خارجہ اور وزارت دفاع نے یہ مشورہ دیا تھا کہ جہاز گرانے کے بعد ان کا ترکی کا دورہ مناسب نہیں ہے اس لئے انہوں نے اپنا دورہ منسوخ کردیا ۔ ادھر صدر پوٹن نے اس پر سخت موقف اختیار کیا اور کہا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ترکی نے روس کو پیٹھ پر چھرا گھونپ دیا ہے ۔ انہوں نے انتہائی سخت الفاظ میں واقعہ کی مذمت کی ہے اور کہا ہے کہ اس کے سنگین نتائج برآمد ہوں گے۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد روس پر یہ پچاس سالوں میں پہلا حملہ ہے ۔ ادھر ترکی نے ناٹو ممالک پر مشتمل فوجی اتحاد کا ہنگامی اجلاس طلب کیا ان ممالک کے سفیروں نے برسلز میں اجلاس میں شرکت کی اور واقعہ پر غور کیا۔ ترکی ناٹو فوجی اتحاد کا رکن ہے لیکن یورپی یونین کا رکن نہیں ہے ۔ امکان ہے کہ ناٹو ممالک اس معاملے میں ترکی کی حمایت کریں گے اور روس کی طرف سے جوابی کارروائی کی صورت میں ترکی کی مدد کریں گے۔ ترکی میں اس بات پر شدید غم و غصہ پایا جاتا ہے کہ روس اور امریکا دونوں بڑی طاقتیں شام کے اندر ترکی کی مفادات کو نظر انداز کرہی ہیں۔ روس داعش کے خلاف کارروائی کررہا ہے اور صدر بشار الاسد کی حمایت کررہا ہے اور اس حمایت میں وہ زبردست فوجی قوت استعمال کررہا ہے حال ہی میں روسی ہیلی کاپٹروں نے ترکمان علاقوں میں بمباری کی، ترکمان ترکی النسل ہیں اور ترکمان صدر اسد کی افواج اور داعش کے خلاف جنگ کررہے ہیں بلکہ ترکی کی مدد کررہے ہیں ترکمان شام میں ترکی کی سرحد کے قریب رہتے ہیں اور وہ آزاد کردستان کے بھی مخالف ہیں ۔ شاید یہی وجہ ہے کہ ترکی نے روسی جنگی طیارے کے خلاف کارروائی کرکے دنیاکی توجہ اپنی طرف مبذول کرائی ہے کہ شام کی جنگ میں ترکی کے مفادات کو نظر انداز نہ کیا جائے ۔ اس کے برعکس روس کردستان کی تحریک کی حمایت کرسکتا ہے اور ترکی کی مشکلات میں مزید اضافہ کر سکتا ہے ۔ اگر روس اور امریکا دونوں نے آزاد کردستان کی حمایت کی تو ترکی کی مشکلات میں مزید اضافہ ہوگا۔ ادھر روس بڑی مقدار میں قدرتی گیس ترکی کو فراہم کررہا ہے ۔ اس سرد موسم میں روس کسی بھی وقت ترکی کو قدرتی گیس کی سپلائی بند کرسکتا ہے اور ترکی کی معیشت کو زبردست طریقے سے نقصان پہنچا سکتا ہے ۔ اس سلسلے میں ایران کا کردار اہم ہوگا ایران ایک متبادل ملک ہے جو ترکی کو گیس سپلائی کررہا ہے ۔ روس اور ایران فوجی اتحادی ہیں اور صدر اسد اور شام کی افواج کی مدد کررہے ہیں اس اتحاد میں نفاق کا کوئی امکان نہیں ہے اور ترکی اس طرح تنہا رہ جائے گا۔