آج کل سیاست اور تجارت میں فرق کرنا زیادہ آسان نہیں ہے پہلے سیاست کو عبادت کا درجہ دیاجاتا تھا اور پوری حکومت اور انتظامیہ ایک غریب اور ادنیٰ سے کارکن کی ہمدردیاں کسی بھی قیمت پر نہیں خرید سکتی تھیں۔ ضلعی انتظامیہ اور مقامی پولیس ان کے کردار سے لرزاں رہتی تھی آج کل یہ سب غائب ہوگیا ہے۔ وجہ۔۔۔ سیاست کو اب عبادت کا درجہ حاصل نہیں بلکہ سیاست کو دولت کے حصول کاآسان ترین ذریعہ سمجھا جاتا ہے اور حقیقتاً ایسا ہی ہے ۔ سیاست صرف اور صرف دولت کمانے کا ذریعہ بن گیا ہے ۔ بعض سیاستدان صرف چند لاکھ کے مالک تھے لیکن اب ان کی دولت کئی اربوں میں ہے بعض کے پاس 400ارب میں تو کسی کے پاس 800ارب روپے ہیں ۔ یا ان کے اثاثوں اور بنک اکاؤنٹ کی ملکیت کافی زیادہ ہے ۔ ذریعہ صرف سیاست اور ریاستی اختیارات کا غلط اور ناجائز استعمال ۔ سیاست میں شامل ہونے کا شوق صرف اس وجہ سے ہے کہ ریاستی اختیارات کا غلط اور ناجائز استعمال کیا جائے ۔ اس کے لئے دوڑ لگی ہوئی ہے ۔ ادنے سے ادنیٰ ’’ عوامی نمائندہ ‘‘ زیادہ سے زیادہ دولت کمانے کی کوشش میں لگا رہتا ہے اور اپنے کام پر توجہ نہیں دیتا ۔ اس بات کی کوشش میں لگا رہتاہے کہ زیادہ سے زیادہ دولت کیسے کمائی جائے اس لئے مقامی مسائل پر وہ کوئی توجہ نہیں دیتا بلکہ مقامی مسائل کو ریاستی اداروں پر دباؤ بڑھانے کے لئے استعمال کرتا ہے کہ ہم کو اختیارات نہیں دئیے گئے اور ہم کو فنڈز نہیں دئیے جارہے ہیں ۔ گٹر ابلنے کا تعلق نہ اختیارات سے ہے نہ فنڈ کے حصول سے ہے ۔ صرف گٹر کو صاف رکھنے اور اس سے پانی کے گزرنے کو یقینی بنانے سے ہے ۔ اس پر میونسپل ادارے توجہ نہیں دیتے جس سے کوئٹہ کی سول سیکرٹریٹ اور افغان کونسل خانہ آئے دن گٹر کے ابلتے پانی میں ڈوبا رہتا ہے ۔ جس دن کارکنوں کی ہفتہ وار چھوٹی ہوتی ہے کوئٹہ کے سارے گٹر ابلتے نظر آتے ہیں اور پورے اشہر کو آلودہ کرتے ہیں ۔ اس کا ذمہ دار کوئی نہیں ہے۔ مئیر صاحب کو آمدنی کے ذرائع تلاش کرنے میں دلچسپی ہے ۔ پورے شہر میں پیڈ پارکنگ کا نظام شہریوں پر مسلط کردیا گیا اگر پیڈ پارکنگ کو عوامی خدمت کا نمونہ بناتے تو ہر شخص خوشی خوشی اس کو قبول کرتا مگر یہ پیڈ پارکنگ لوگوں کے لئے زحمت بن گئی ہے ۔ سیاسی کارکن کو روزگار فراہم کیاگیا اور اس اجازت کے ساتھ کہ وہ لوٹ مار کرے، زیادہ سے زیادہ رقم وصول کرے ، بد تمیزی الگ کرے اور ساتھ ہی شہر میں ٹریفک کے مسائل کھڑے کرے ۔ خصوصاً اہم ترین شاہراہوں پر ٹریفک جام ‘ لوگوں کے قیمتی وقت کا نقصان ۔ہونا تو یہ چاہئیے تھا کہ آمدنی کا اسی فیصد رقم میونسپل ادارے کو ملتااور ٹھیکے دار کو صرف بیس فیصد ۔ اس سے میونسپل ادارے کی آمدنی میں اضافہ ہوتا ۔ ساتھ ہی ایک معمولی سی فیس میونسپل ادارہ خود مقرر کرتا ۔ زیادہ سے زیادہ گاڑی کے لئے پانچ روپے اور موٹر سائیکل کے لئے دو روپے ۔ اب لوگوں سے تیس اور چالیس روپے وصول کیے جارہے ہیں جو عام لوگوں پر نہ صرف بوجھ ہے بلکہ لوٹ مار کا ذریعہ بن گیا ہے ۔ میونسپل ادارے اپنے بنیادی کام صحت و صفائی پر توجہ دیں کوئٹہ کو پہلے صاف رکھیں آلودگی مکمل طورپر ختم کریں ۔ اس کے بعد اختیارات اور فنڈ زکا مطالبہ کریں۔ جب تک کوئٹہ کو آلودگی سے مکمل طورپر پاک نہیں کیا جاتا، حکومت ان کو نہ فنڈ دے اور نہ مزید اختیارات۔ کچرا اٹھایاجائے خصوصاً ان علاقوں سے جہاں پر غریب اور متوسط طبقے کے لوگ رہتے ہیں اور جہاں پر میونسپل سروسزموجود نہیں ہیں ۔ ان کا حق پہلے ہے وہ تمام صفائی پر مامور عملہ جو افسران اور حکمرانوں کے گھروں میں مفت کام کررہے یں ان کو عوام الناس کی ڈیوٹی پر واپس بلایاجائے ۔
ماحول میں آلودگی اور مقامی ادارے
وقتِ اشاعت : November 26 – 2015