کوئٹہ : بلوچستان نیشنل پارٹی کے سربراہ رکن صوبائی اسمبلی سردار اخترجان مینگل نے کہا ہے کہ موجودہ حکومت کے ڈھائی سال مری معاہدے کی فکر اور آئندہ ڈھائی سال سوگ میں گزریں گے آری اور درخت کی نظر آنیوالی دوستی درحقیقت بلوچستان کیلئے بلکہ بڑھئی کے مفادات کیلئے ہے وزیراعلیٰ نے اب تک ایسا کوئی اقدام نہیں کیا جس سے یہ ثابت ہو سکے کہ وہ بااختیار ہیں ان خیالات کا اظہار انہوں نے ’’آن لائن‘‘ سے خصوصی بات چیت کرتے ہوئے کیا انہوں نے کہا کہ ماضی میں ہم نے شملہ معاہدے کے چرچے سنے تھے مگر گزشتہ ڈھائی سے کانوں میں صرف مری معاہدے کی ہی آوازیں گونج رہی ہیں کیونکہ یہاں بلوچستان کے مسائل کے حل پسماندگی کے خاتمہ امن کی بحالی عوام کے طرز زندگی میں بہتری جیسا کوئی نعرہ بلند نہیں ہورہا آوازیں محض مری معاہدے کی ہی ہیں اور مجھے تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ موجودہ حکمرانوں کے ڈھائی سال مری معاہدے کی فکر جبکہ آئندہ ڈھائی سال اس کے سوگ میں گزریں گے یہاں بہتری کے دعوے کرنے والوں نے شاید کبھی غور سے دیکھا ہی نہیں کہ کس طرح ظلم جبر اور ناانصافیوں کا بازار گرم ہے ہر کسی کے دیکھنے کا اپنا انداز ہوتا ہے اور حکمرانوں کو یہاں گرتی لاشیں اب نظرآنا بند ہو چکی ہیں انہیں نظر بھی کیسے آئیں کیونکہ زرغون روڈ اور فائیواسٹار ہوٹل کی لابی میں لاشیں نہیں گرتی اور حکمران اس سے باہر نہیں آسکتے بلوچستان میں بلوچستان میں امن حالات کی بہتر ترقی اور خوشحالی کے دعوؤں میں کوئی حقیقت نہیں حکمران محض اپنے مفادات کی تکمیل کی کوششوں میں مصروف عمل ہیں جبکہ بلوچستان کو مزید محرومیوں کے اندھیروں میں دھکیل دیا گیا ہے انہوں نے کہا کہ جمہوریت کے دعویدار عوام کی طرز زندگی میں بہتری لانے میں ناکام رہے ہیں آری اور درخت کی دوستی ناکبھی تھی اور نا کبھی ہوسکتی ہے حال میں نظرآنے والی دوستی محض بڑھئی کی ضرورت کی وجہ سے ہے بلوچستان کو اس دوستی سے کوئی فائدہ پہنچنے والا نہیں انہوں نے کہا کہ ہتھیار پھینکنے والوں کے مسائل حل نہیں ہورہے بلکہ ان کی قیمتیں لگائی جارہی ہیں اس امر پر غورہی نہیں کیا گیا آخر وہ اس راستے پر گئے ہی کیوں تھے اگر انہیں چند روپوں کی ضرورت ہوتی تو وہ اتنی قابلیت رکھتے تھے کہ وزیر بن جاتے تو کروڑوں کما سکتے تھے بلوچستان کا ہمیشہ سے یہ المیہ رہاہے کہ یہاں بنیادی مسائل کی جڑ کو ختم نہیں کیا جاتا جو پالیسیاں آج مرتب کی گئی ہیں ماضی میں بھی ایسی پالیسیاں چلائی گئیں مگر اس کے کیا نتائج حاصل ہوئے انہوں نے کہا کہ وزیراعلیٰ بلوچستان نے ڈھائی سال میں ایسا کوئی اقدام نہیں کیا جس سے یہ اندازہ ہو سکے کہ وہ بااختیار ہیں بلکہ میں تو یہ کہوں گا کہ اتحاد کے دعویداروں میں اتنا بھی اتحاد نہیں کہ اپنی اسمبلی کے اسپیکر کا چناؤ ہی کر لیں یہاں وزیراعلیٰ کی غیرموجودگی میں سی پیک کے معاہدے طے کر دیئے جاتے ہیں اور انہیں اس کا علم ہی نہیں ہوتا اور اگر اب بھی حکمران یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ بااختیار ہیں تو انہیں اپنی اسمبلی میں بلوچستان کے ساحل ووسائل پر اختیارات کے حصول کیلئے قرار داد پیش کرنے کی کیا ضرورت پیش آئی تھی جس قرار داد کو ایوان میں وزیراعلیٰ سمیت سب نے بھاری اکثریت سے منظور کروایا اس کا تحفظ تک نہیں کیا جارہا اور یہ ذمہ داری وزیراعلیٰ کی بنتی ہے کہ وہ اپنی اس قرار داد کا تحفظ کرتے اور وفاق سے ساحل ووسائل پر اختیارات حاصل کرتے انہوں نے کہا کہ بلوچستان نیشنل پارٹی ہمیشہ سے بلوچستان کے عوام کے حقوق کے تحفظ کی جدوجہد کرتی رہی ہے نوشکی میں ہونے والا جلسہ اس بات کی غمازی کرتا ہے اہل بلوچستان بی این پی کے جھنڈے تلے یکجا ہو کر اپنے حقوق کا حصول چاہتے ہیں ۔