یہ بات بالکل غلط ہے کہ کسی کے نْقصان سے دُوسرے کا فائدہ نہیں ہوتا۔ جب تلک کوئی بیمار نہ پڑے ڈاکٹر کے گھر کا چھولا نہیں جلے گا۔ اگر کسی کا جوتا پھٹ جائے تب ہی موچی کو پیسے مل سکیں گے۔یہ بات آج میری سمجھ میں آگئی کیونکہ میرا موبائل ہاتھ سے گرکر ٹوٹ گیا تو میں بڑا پریشان ہوا، اور اُسے بنانے کے لیے موبائل رپیئرنگ کی دُکان پہ چلا گیا، ایک نوجوان فارغ بیٹھا پاکستان اور انگلینڈ کا میچ دیکھ رہا تھا اور اس تجسس کے ساتھ دیکھ رہا تھا کہ میرے اندر آنے کا اُسے پتا ہی نہیں چل سکا۔ خیر میں نے موبائل بنانے کے لیے اسے دے دیا اور اس نے ایک گھنٹے بعد آنے کو کہا، اس دوران میں ہوٹل پہ چائے پینے چلا گیا، ہوٹل کے بلمقابل ایک مکینک کسی حادثے کے شکار ایک پُرانی کار کو ٹھیک کرنے میں لگا ہوا تھا۔میرے دل میں خیال آیا کہ پتا نہیں اس میں موجود بندے سلامت رہے ہونگے یا نہیں؟
انھی سوچوں میں گُم ایک گھنٹہ گزر گیا اور میں واپس موبائل کی شاپ پے چلا آیا اس دوران وہ لڑکا موبائل ٹھیک کر چکا تھا اور واپس کرکٹ کی دُنیا میں چلا گیا تھا۔ پندرہ سو روپے خرچ کرنے کے بعد میں بڑبڑایا کہ کاش اگر میں احتیاط کرتا تو اتنے سارے پیسے نہیں دینے پڑتے۔ دکاندار نے ہنس کر کہا، بھائی اگر آپ احتیاط کرتے تو مجھے پندر ہ سو روپے نہیں ملتے۔ مجھے بڑا غصہ آیا کہ اس بے وقوف کو دیکھو میرے نُقصان پہ خوش ہو رہا ہے۔ اس غصے کے ساتھ ہی میں دکان سے نکل آیا۔ باہر آکر اندازہ ہوا کہ واقعی اگر میرا نقصان نہیں ہو اہوتا تو آج اس بندے کو اتنے سارے پیسے نہیں ملتے اور یکایک مجھے وہ مکینک یاد آگیا کہ اگر وہ کار والا ایکسیڈنٹ نہ کرتا تو مکینک کے گھر کا چھولا کیسے جلتا۔یہ نظام قدرت نے ہی بنایا ہے کہ ایک سے لو اور دوسرے کو دو۔ بلوچستان میں انٹرنیٹ میرے خیال میں ہر ضلع میں ہوگااور اگر سب لوگ استعمال نہیں کرتے تو یقیناً سب انٹرنیٹ کے بارے میں میں جانتے ہونگے۔ اب یہاں اگر انٹرنیٹ کسی کے لیے فائدے کی بات ہے تو وہیں بہت سے لوگوں کے لیے پریشانی کا سبب بھی ہے۔ اب موجودہ گورنمنٹ کو ہی دیکھ لو انکے ہر اچھے اور برے کرتوتوں کے بارے میں ہمیں پتا چل جاتا ہے۔انٹرنیٹ پہ میں ایک ویڈیو دیکھ رہا تھا جس میں مغرب کے لوگوں کا جانداروں سے محبت دکھایا گیا ہے۔ایک پرندہ بجلی کے تاروں میں پھنس چکا ہوتا ہے اور علاقے کا انتظامیہ سرتوڑ اسے بچانے کی کوششوں میں لگے ہوئے ہوتے ہیں۔جب لوگ دیکھتے ہیں کہ وہاں تک پہنچنا مشکل ہے تو گورنمنٹ کے لوگ ایک ہیلی کاپٹر کا انتظام کرتے ہیں اور ہیلی کاپٹر میں موجو د لوگ وردیوں میں ملبوس اس پرندے کو بچانے کی کوششوں میں لگ جاتے ہیں، دیکھنے والا ایک لمحے کے لیے حیران ہو جاتا ہے کہ ایک پرندے کو بچانے کے لیے یہ لوگ اتنی مشکلات کیوں اُٹھا رہے ہیں، اور دیکھنے والا مجھ جیسا ہو تو حیرانگی لازم وملزوم بن جاتے ہیں کہ میرے دیس میں ایک انسان کی اتنی اہمیت نہیں اور یہاں ایک پرندے کو بچانے کی کوششیں کی جارہی ہیں۔(اور تو اور میرے دیس میں ہجرت کرنے والے پرندوں کو مارنے کے لیے باہر سے لوگ آتے ہیں، اور وہ بھی حاکمِ وقت کی خصوصی اجازت نامے کے ساتھ، اور حکومت اپنی بے بسی کا اظہار کرتے ہوئے کہتا ہے کہ اگر ہم انھیں اجازت نہ دیں تو ہمارا دیس مشکل میں پڑ جائیگا کیونکہ آنے والے مہمان ہمارے ملک کے ساتھ ٹریڈ کرتے ہیں اور اگر ٹریڈ بند ہو تو ہمیں اربوں کا نقصان اُٹھانا پڑسکتا ہے، اسی لیے ہم انھیں ان معصوم جانوروں کا شکار کرنے کی اجازت دینے میں ذرہ برابر دیر نہیں کرتے۔کھبی کبھی سوچتا ہوں کہ اگر ان مہمانوں کو انسانی شکار کرنے کا شوق چڑگیا تو ہماری حکومت ہمیں تو سُنت ابراہیمی کا نام دے کر مابدولت کے سامنے حاضر کر دیگاکیونکہ رعایا تو چلا جائے تو جائے پر آقا کو ناراض نہیں کرنا ورنا عربوں سے ارب آنا بند ہو جائیگا)
خیر میں کہانی کو کئیں اور لیکر چلا گیا، تو جناب وہ لوگ اُس پرندے کو بچانے کی کوششوں میں لگ جاتے ہیں اور ہیلی کاپٹر پہ تختے جیسی چیز لگی ہوئی ہوتی ہیں، اور ایسا لگتا ہے کہ اس ہیلی کاپٹر کو بس جان بچانے کے لیے استعمال کرتے ہیں ، کچھ ہی دیر میں اُس پرندے کی جان خلاصی ہوتی ہے اور کہانی یہاں ختم نہیں ہوتی، وہ لوگ اس پرندے کو اپنے ساتھ جانوروں کے ہسپتال لے کرجاتے ہیں اور تسلی سے معائنہ کرتے ہیں کہ آیا اس پرندے کو چوٹ تو نہیں لگی، ان سب کے بعد وہ لوگ اس پرندے کو ہوا میں چھوڑ کر دم لیتے ہیں۔ایک پرندے کی اتنی اہمیت دیکھ کر میں مایوسی کی دُنیا میں چلا گیا کہ جس دیس میں اک پرندے کی اتنی اہمیت ہے، وہاں کے لوگوں کی کیا اہمیت ہوگی۔ اب اس ویڈیو کودیکھ کر تو مجھے پتہ چلا کہ انسانیت ابھی زندہ ہے، وہیں پہ نیشنل پارٹی کے لیے نقصان دہ ہے کہ ان کے کارناموں کے بارے میں پورے راج کو پتا چل جاتا ہے کہ وہ لوگ کیا گُل کھلا رہے ہیں۔حال ہی میں ایک بچی کا کیس سامنے آیا کہ بی بی حاجرہ جو کہ خاران کی رہائشی ہے کینسر کے ایک خاص قسم (Acute myeloid Leukemia) میں مبتلا ہے، لیکن اسکے گھر والوں کے پاس اتنے پیسے نہیں کہ اسکا علاج کر اسکیں، اور اس وقت پاکستان میں اس مخصوص مرض کا علاج صرف آغا خان ہسپتال کراچی میں ممکن ہے۔ جن کے پاس خاران سے کوئٹہ تک کا کرایہ نہیں وہ لوگ کراچی میں علاج کرنے سے قاصر ہی ہونگے۔ بلوچستان پوائنٹ نامی آن لائن اخبار کے مطابق سول سوسائٹی کوئٹہ کے لوگ مابدولت ڈاکٹر عبدلمالک کے پاس عرضی لیکر گئے کہ آپ اس وقت کرسیِ اعلیٰ پہ بُراجمان ہو ں تو آپ ہی اس بی بی حاجرہ نامی بچی کی مدد فرمائیں۔ لیکن ڈاکٹر صاحب نے یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ چونکہ ہمارے پاس فنڈز کی کمی ہے اس لیے میں امداد دینے سے قاصر ہوں، اور ڈاکٹر صاحب نے یہاں تک کہہ دیا کہ میرا ایک رشتہ دار کینسر کی وجہ سے وفات پا گئے، یہ سب اللہ کی مرضی ہے ، زندگی اور موت اللہ کے ہاتھوں میں ہے۔ کیا واقعی سونا اگلنے والی دیس کی حکومت کے پاس اتنے پیسے بھی نہیں کہ وہ ایک معصوم جان بچا سکے؟ جواب نہ ہی میں ملیگی کیونکہ کچھ عرصے پہلے حکومت بلوچستان نے پندرہ عرب روپے یہ کہہ کر وفاق کو واپس کر دیئے تھے کہ ہم سے خرچ نہیں ہوئے اس لیے واپس کر رہے ہیں۔بات یہاں پہ ختم نہیں ہوتی ، تقریباً اگست کے مہینے میں حکومت بلوچستان کا چونتیس رُکنی وفد امریکہ چلا گیا جو کہ کثیر تعداد میں صوبائی اسمبلی کے ممبران پہ مشتمل تھا، ان سب لوگوں کا خرچہ حکومت بلوچستان برداشت کر رہا تھاوہاں تک جانا،وہاں پہ ان لوگوں کی رہائش کا انتظام سب حکومتِ بلوچستان پہ تھا جس پہ کروڑوں روپے خرچ ہوئے اور حال ہی میں ایک اور وفد انگلینڈ کا دورہ کر نے گیا جس پہ یقیناًکروڑوں مزید خرچے آئے ہونگے۔ لیکن ایک انسانی جان بچانے کے لیے ہماری حکومت کے پاس پیسے نہیں؟ اب صاحب ہمیں بے وقوف سمجھو لیکن روزانہ بناؤ نہیں۔ اگر باہر کے ملکوں میں ایک پرندے کی جان اتنی پیاری کہ اسکو بچانے کے لیے ہیلی کاپٹر کی مدد لی جاسکتی ہے، اور پوری انتظامیہ اس پرندے کو بچانے کیے سرتوڑ کوششوں میں لگ جاتی ہے ، اور یہاں حکمران یہ کہتے ہیں کہ یہ سب اللہ کے ہاتھوں میں ہے ہمارے پاس پیسے نہیں۔ میں اس آرٹیکل کے توسُط سے رائیونڈ والوں سے اپیل کرتا ہوں کہ اگر آپ لوگوں نے ہمیں ایک وزیر اعلیٰ تحفے میں دے دیا اب ہماری جان بچانے کے لیے بھی تم لوگ ہی سامنے آو، کیونکہ بے شک مایوسی کفر ہے لیکن ہم واقعی اس تحفے میں ملے ہوئے وزیر اعلیٰ سے ما یوس ہو چکے ہیں، اور میں پورے بلوچستان کے لوگوں سے اپیل کرتا ہوں کہ خدارا اس بچی کی جان کو بچا کر انسانیت کو بچا لیجئے، ورنا انسانیت شرمندہ ہوگی کہ کہیں پہ انسان تو دور ایک پرندے کو بچانے کے لیے لوگ اپنا سب کچھ لگا لیتے ہیں اور یہاں ایک انسان کی جان اتنی قیمتی نہیں کہ اُسے بچایا جا سکے۔