|

وقتِ اشاعت :   December 2 – 2015

وزیراعظم پاکستان نواز شریف کی افغان صدر اشرف غنی سے ملاقات ہوئی حالیہ کشیدگی کے ماحول میں یہ ملاقات ایک خوش آئند عمل ہے ۔ ملاقات پیرس میں بین الاقوامی ماحولیاتی کانفرنس کے دوران ہوئی ،اس میں برطانیہ کے وزیراعظم کیمرون بھی تصویر میں نظر آرہے ہیں ۔ برطانیہ اس خطے کا حکمران رہا ہے اور افغانستان کے کچھ حصے ، پورا برصغیر اور بلوچستان ایک صدی تک برطانیہ کی نو آبادی رہی ۔ افغان ‘ بلوچ اور ہند کے باشندوں نے برطانوی غلامی کے خلاف پوری صدی جدوجہد کی ۔ بلوچوں نے 100سالوں میں برطانوی افواج کے خلاف 200چھوٹی بڑی جنگیں لڑیں اور 15فوجی آپریشنز کا سامنا کیا ۔ جبکہ پہلی افغان جنگ میں جوابی حملہ میں برطانیہ کا کوئی سپاہی افغانستان بھر میں زندہ نہیں بچا ۔ پس برطانیہ کی پورے خطے میں دل چسپی قدرتی امر ہے ۔ امریکی یہاں پر جنگ لڑتے رہے ۔ برطانیہ پورے خطے میں سفارت کاری کرتا رہا بلکہ ابھی تک کررہا ہے ۔ برطانیہ اوردوسرے مغربی ممالک کی یہ کوشش ہے کہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان تعلقات معمول کے مطابق رہیں۔ دونوں ملکوں کے درمیان کشیدگی نہ ہو بلکہ دونوں ممالک آپس میں تعاون کریں اور پورے خطے سے دہشت گردی کا خاتمہ کریں ۔ پاکستان اور اس کے عوام کی بھی یہی خواہش ہے کہ خطے سے دہشت گردی کا ہمیشہ ہمیشہ کیلئے خاتمہ ہو اور دہشت گردوں کو عبرتناک شکست دی جائے اس لئے حکومت پاکستان اور مسلح افواج نے افغان حکومت اور حکمرانوں کو اعتماد میں لیا اور وزیرستان آپریشن شروع کیا اس توقع کے ساتھ کہ افغانستان ملحقہ علاقوں میں اپنی سرحدیں بند کردے گا اور دہشت گردوں کو پاکستان خصوصاً افغانستان کے ساتھ سرحدی علاقوں سے فرار ہونے کے مواقع نہیں ملیں گے۔ مگر افغان حْکمرانوں نے اپنی سرحدیں بند نہیں کیں اور دہشت گرد پاکستان سے فرار ہو کر افغانستان چلے گئے اور وہاں اپنے فوجی ٹھکانے بنالیے اور وہاں سے انہوں نے پاکستان کے مسلح افواج اور آبادیوں کو نشانہ بنانا شروع کردیا اسی وجہ سے کابل قندوز کے واقعات پیش آئے اور افغان حکومت کو سبکی کا سامنا کرناپڑا ۔اگر افغانستان ملحقہ سرحدوں کو بند کردیتا اور دہشت گردوں کے افغانستان فرار ہونے کے راستے بند ہوجاتے تو کابل اور قندوز کے واقعات پیش نہیں آتے، اپنی سبکی اور غلطی کو چھپانے کے لئے افغانستان نے سارے الزامات پاکستان پر لگا دئیے حالانکہ قندوز بہت دور ہے تاجکستان کے سرحد کے قریب ہے وہاں پر پاکستانی مداخلت کو عقل تسلیم نہیں کرتی۔ بہر حال پاکستان نے صبر اور تحمل کا مظاہرہ کیا اور افغان الزامات کے جواب میں پاکستانی حکمران طیش میں نہیں آئے اور معاملات کو قالین کے نیچے دبا دیا ۔ آج یہ موقع پھر آیا ہے کہ وزیراعظم پاکستان نے افغان صدر کو مفاہمت اور تعاون کی پیش دوبارہ کی اور امید کی اس فضاء کو قائم رکھا کہ دونوں ممالک کے تعاون سے دہشت گردی کو شکست دی جائے اور پورے خطے میں دیر پا امن قائم کیاجائے ۔ موجودہ کشیدہ ماحول میں افغان طالبان اور کابل کے درمیان مذاکرات مشکل نظر آرہے ہیں جب کبھی مناسب موقع ہاتھ آیا تو پاکستان اپنا کردار ادا کرے گا اور پاکستان ان مذاکرات میں سہولت کار کا کردار ادا کرے گا ۔ پاکستان کا یہی پیغام تھا جو وزیراعظم پاکستان نے افغان صدر اشرف غنی کو براہ راست پہنچا یا اور اپنی نیک نیت ہونے کا ثبوت فراہم کیا کہ افغانستان میں امن ‘ سلامتی اور افغان ملت کی یک جہتی پاکستان کے عظیم تر مفاد میں ہے ۔ پاکستان میں دہشت گردی اور فساد بنیادی طورپر افغان خانہ جنگی کا حصہ تھا جس نے پاکستان کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا اب جبکہ مسلح افواج نے پورے ملک کو دہشت گردی سے پاک کردیا ہے ۔ اور زیادہ دہشت گرد افغانستان فرار ہوچکے ہیں پاکستان کا یہ مصمم ارادہ ہے کہ دہشت گردوں کو دوبارہ پاکستان آنے نہیں دیا جائے گاص تاکہ وہ اپنی کارروائیاں دوبارہ شروع نہ کرسکیں ۔