|

وقتِ اشاعت :   December 3 – 2015

آج بھی یہ سوال معاشرے کے ایوانوں میں گونج رہی ہے کہ کیا معاشرے نے معذور افراد کو اپنا حصہ بنا لیا ہے یا ابھی تک انہیں یہ احساس دلانے کی کوشش کی جاتی ہے کہ وہ معاشرے میں ایک اور مخلوق کی صورت میں اپنا وجود رکھتے ہیں۔ 3دسمبر کو معذوروں کا عالمی دن منایا جاتا ہے اس دن کے منانے کا خاص مقصد معذوروں کے مسائل وضروریات نیز اسکی صلاحیتوں اور کارکردگی سے متعلق معاشرے اور حکومت کو متوجہ کرنا ہے۔ تاکہ مختلف اداروں کی بامقصد منصوبہ بندی ہوسکے۔اور آئندہ کا لائحہ عمل طے ہوسکے پاکستان کی قومی پالیسی 2007میں معذوروں کے حقوق اور حیثیت کا تعین کیا گیا ہے۔ لیکن اس پر عملدرآمد کے لئے جسطرح کے اقدامات کی ضرورت ہے وہ اقدامات نہیں اٹھائے گئے۔ 1998کی مردم شماری کے مطابق پاکستان کی آبادی کا 2.4فیصدحصہ معذوری کا شکارہے۔ جبکہ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن WHOنے یہ تعداد بڑھا کر 10فیصد ظاہر کر دی۔ اگر موجودہ وقت اسکا جائزہ لیا جائے یا ایک نیا سروے مرتب کیا جائے تو یہ تعداد کئی گنا بڑھ سکتی ہیں۔ معذوروں میں بہرے، گونگے، نابینا، جسمانی و زہنی معذوری کے ساتھ ساتھ اب ایک اور چیز کا اضافہ دہشتگردی میں معذوری کے شکار افراد یا مختلف حادثات کا شکار بننے والے معذور شامل ہیں۔ معاشرے میں بڑھتی ہوئی لاقانونیت اور معذوروں کے حقوق کی پامالی کے خلاف وقتاً فوقتاً قوتوں نے جنم لیا۔ معاشرے میں پائی جانے والی ناانصافیوں کیخلاف غیر سرکاری اداروں نے سر اٹھانا شروع کیا اور متحرک ہوگئے۔ mazoor1لیکن معذور افراد کے لئے انکی آواز میں کوئی جان نہیں رہی۔ تو معذوروں کا اپنا اہل قبیلہ اس میدان میں اتر گئے اور آج وہ سماج میں اپنے حقوق کے لئے آواز بلند کرتے نظر آتے ہیں۔ ہم نے معاشرے کے ایسے کئی معذور افراد کا انتخاب کیا جنہوں نے مایوسی کو گلے لگانے کے بجائے ہمت کا مظاہرہ کرتے ہوئے کامیابیاں حاصل کیں اور آج معاشرے میں مثالی کردار بھی ادا کر رہے ہیں۔انکے احساسات کو قلم بند کرکے آپ کے سامنے لانے کی کوشش کی ہے کہ وہ کیا سوچتے ہیں انہیں معاشرے سے کیا گلہ ہے انہوں نے معاشرے کو کیا دیا ہے۔ ہم نے اس رپورٹ میں ان فراد کی رائے کو بھی شامل کرنے کی کوشش کی ہے جنہوں نے حقیقت میں انکی آواز کے ساتھ ہم آواز ہوکر اس تحریک کو دوام بخشا۔ اور ہم نے حکومتی اداروں کے نمائندوں سے انکی رائے جاننے کی کوشش کی ہے جو کہ مختلف پروگراموں میں کام کر رہے ہیں۔ ہماری پہلی ملاقات جناح روڑ پر واقع فٹ پاتھ پر سفید چڑی کے سہارے چلنے والے صابر سے ہوئی ۔50سالہ صابر کا تعلق خاران سے ہے اور آج کل کوئٹہ کے علاقے بروری میں رہائش پزیر ہیں۔ وہ آنکھوں کی بینائی سے محروم ہے۔ انہوں نے نابینا پن کو آج تک اپنی کمزوری نہیں ہونے دیا اور روزگار کے لئے چھوٹی موٹی چیزوں کا انتخاب کرکے بیچتے ہیں جن سے انکی گزر بسر ہوتی ہے۔ وہ اپنی کہانی یوں بیان کرتے ہیں۔’’ میں نے آج تک دنیا کی رنگینی نہیں دیکھی ہے جب پیدا ہوا تو اس دنیا کو اندھیرا پایا لیکن اس اندھیرے پن کو آنکھوں تک محدود رکھا اسے دماغ تک پہنچنے نہیں دیاآواز سے ہی چیزوں کو محسوس کرتا ہوں۔ بچپن میں جب تعلیم حاصل کرنے کا شوق پیدا ہوا۔ سوچا اسکول جاؤں لیکن والد نے مدرسے کا راستہ دکھایا۔ استاد بہت مارتا تھا مارنے کی وجہ سے دلبرداشتہ ہوکر مدرسہ چھوڑ دیا۔ ملازمت کے حصول کے لئے جگہ جگہ ہاتھ پاؤں مارے لیکن کہیں کوئی صلہ نہیں ملا ہر مقام پر رشوت کی بات کی گئی پیسے نہیں تھے ملازمت کا حصول ترک کرکے چھوٹی چیزیں بیچنا شروع کیں جس سے گزر بسر ہوتی ہے۔ وہ ہر سال 15 اکتوبر کو سفید چڑی کا عالمی دن منانے کے لئے پاکستان ایسوسی ایشن آف دی بلائنڈ آفس جاتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ اس دن کی خاصیت ہی ایسی ہے کہ سب نابیناؤں کو ایک ہی جگہ جمع ہونے کا موقع ملتا ہے۔وہ آجکل مسواک کا گھچا ہاتھ میں لئے بیچنے میں مصروف عمل ہوتا ہے۔ ہماری گفتگو جاری تھی کہ ایک راہگیر نے اسے بھکاری سمجھتے ہوئے 10روپے اسے تھما دیا۔ تو اس نے جھٹ انکار کر دیا کہ بھیک سے وہ نفرت کرتے ہیں ہاں ایک کام ہو سکتا ہے کہ ایک مسواک لیکر اسکی قیمت ادا تو بہتر رہے گا۔ صابر نے راہگیر کے لئے حیرانگی کا سامان چھوڑ دیا۔وہ کہتا ہے کہ معاشرے میں اچھے لوگ بھی ملتے ہیں جو میرا کام دیکھ کر میرا حوصلہ بڑھاتے ہیں اور بہت سے لوگوں کی زبانی مایوسی کے الفاظ بھی سنتا ہوں۔ عبدالمنان کوئٹہ کے رہائشی ہیں۔ حادثے میں ریڑھ کی ہڈی ٹوٹ جانے سے معذوری کا شکار ہو گئے تھے۔ میری ان سے ملاقات میزان چوک کے فٹ پاتھ پر ہوئی۔ فٹ پاتھ پر رکھا اسکا وزن کرنے والا آلہ اسکی کمائی کا ذریعہ ہے عبدالمنان اپنی کہانی یوں بتاتے ہیں۔’’ میں کراچی سے ڈیرہ غازی خان چلنے والی گاڑی کے ساتھ بطور کنڈیکٹر کام کرتا تھا۔ یہ 2000ء کی بات ہے کہ ایک شام بس کی چھت پر کھڑا رسی باندھ رہا تھا کہ بیلنس آؤٹ ہوگئی اور چھت سے نیچے گرنے کی وجہ سے ریڑھ کی ہڈی ٹوٹ گئی۔ شروع میں ڈاکٹروں سے بہیت علاج کرایا لیکن ٹھیک نہیں ہوا تو کمہار کا سہارا لیا ہلکی سی بہتری آگئی ۔ 12مہینے بستر پر پڑا رہا۔ پھر باہر نکلنے کی ٹھان لی۔ گزشتہ 13سال سے گھر چلانے کے لئے یہ کام کرتا ہوں آج تک کسی کے سامنے ہاتھ نہیں پھیلایا۔ ہاتھ پھیلانا ایک جرم سمجھتا ہوں اور یہ معاشرے کے لئے ناسور بن چکا ہے۔ جب صحت مند تھا تو معاشرے کا رویہ بہت ہی اچھا تھا لیکن واقعہ ہونے کے بعد معاشرے نے اپنا رویہ تبدیل کیا۔ بس یوں سمجھئے معاشرہ بے حسی کا شکار ہے۔ معذوروں کو اپنی بقاء کی جنگ خود لڑنی ہے‘‘۔ عبدالمنان معذوروں کے عالمی دن کے حوالے سے ناواقف ہیں کہ 3دسمبر کو معذوروں کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔ اس حوالے سے سول سوسائٹی بلوچستان اپنا کردار کس انداز سے ادا کر رہا ہے اور وہ معذوروں کو معاشرے کا حصہ بنانے کے لئے اپنا کیا کردار ادا کر رہی ہے۔ یہی سوال سول سوسائٹی بلوچستان کے کنوینیئر سمیع زرکون کے سامنے رکھا۔ ’’ دیکھئے سول سوسائٹی کا کام آگاہی فراہم کرنا اور قانون سازی کرنا ہوتا ہے ۔ہماری کوشش ہوتی ہے کہ معذور افراد کو آگاہی فراہم کریں کہ وہ گھروں سے باہر نکلیں اور اپنے حقوق کی جنگ خود لڑیں ۔ اسی مناسبت سے خصوصی افراد کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔اس پلیٹ فارم کے توسط سے مختلف سماجی اداروں کے ساتھ ملکر ہم صوبائی حکومت پر زور دیں گے کہ وہ معذوروں کے حوالے سے بنائی گئی پالیسی پر عملدرآمد کریں اور معذوروں کو معاشرے کا حصہ بنانے کے لئے انہیں مواقع فراہم کریں ۔ اور ملازمتوں میں معذوروں کے لئے مختص کی گئی ملازمتوں کے 2فیصد کوٹے پر نہ صرف عملدرآمد کیا جائے بلکہ اسکے ساتھ ساتھ معذوروں کی شرح جس تیزی سے بڑھ رہی ہے اسی تناسب کے ساتھ ساتھ انکا کوٹہ بھی بڑھایا جائے۔ اور اداروں تک انکی رسائی کو ممکن بنائی جائے‘‘۔وہ معذوروں کے حوالے سے اپنے پیغام میں کہتے ہیں ’’ معذور معاشرے کا حصہ ہیں انہیں معذور نہ سمجھا جائے بلکہ انہیں مواقع فراہم کئے جائیں تاکہ وہ بھی معاشرے کی اصلاح میں اپنا کردار ادا کر سکیں۔‘‘ معاشرے میں ایسے افراد کی بڑی تعداد بھی موجود ہے جنہوں نے جسمانی معذوری تو دیکھی لیکن انہوں نے اس معذوری کو اپنے اوپر حاوی ہونے نہیں دیا۔ بلکہ وہ آج معاشرے میں ایک عملی نمونے کے طور پر پہچانے جاتے ہیں۔ انہوں نے نہ صرف اپنی زندگی میں ایک بڑی تبدیلی لائی بلکہ اسکے ساتھ ساتھ معاشرے میں مثبت تبدیلی لانے اور معاشرے میں موجود دیگر معذوروں کی زندگی کو بہتر بنانے کی کوشش کی ہے۔ یقیناًانہوں نے ان مایوس افراد کے لئے ایک سوال چھوڑا ہے کہ جب زہن معذور نہ ہو تو جسم کی معذوری انکے عزائم کو پست نہیں کرتی۔ ضیاء الرحمان انہی میں سے ایک ہیں ۔ وہ ایک سوشل ایکٹویسٹ ہیں اور کوئٹہ آن لائن کے نام سے سماجی ادارہ چلا رہے ہیں۔ جسکا مقصد معاشرے میں مثبت تبدیلی لانا اور نوجوانوں کو پلیٹ فارم مہیا کرنا ہے۔ ضیاء الرحمان نے ITکے شعبے سے ماسٹر بھی کیا ہے اور اسکے ساتھ ساتھ سرکاری سطح پر ملازمت بھی کر رہے ہیں۔ وہ کچھ یوں بیان کرتے ہیں۔’’ جب 3سال کا تھا کہ پولیو کا شکار ہوگیا۔ اس سے دونوں ٹانگوں پر متاثر ہوئیں۔ کیونکہ اس وقت آگاہی نہیں تھی اسلئے خاندان اس مسئلے کو نہ سمجھ سکا لیکن خاندان نے دوسری غلطی نہیں کی انہوں نے مجھے معذوروں کی طرح نہیں رکھا بلکہ مجھے اعلیٰ تعلیم دلوایا۔ جب معاشرے میں سوشل میڈیا کی منفی استعمال کا رجحان روز بروز بڑھتا چلا گیا تو سوچا کیوں اس باب کا صحیح استعمال اور وقت کا صحیح استعمال انہیں سکھائی جائے۔ تو کوئٹہ آن لائن کا خیال آیا چند دوستوں کے ساتھ ملکر ادارے کا آغاز سوشل میڈیا کے ذریعے کیا۔ پھر آہستہ آہستہ کاروان میں لوگ شامل ہوتے گئے اور آج کوئٹہ کی سطح پر یہ بڑی سماجی سائیٹ بن چکی ہے۔ اس پلیٹ فارم کا مقصد انسانیت کی خدمت کرنا ہے اور اس فورم کے ذریعے خون کی عطیات، غریب مریضوں کی مدد کرنا ہوتا ہے۔ ہر سال کی طرح اس سال بھی افراد بمع معذوروں کا عالمی دن دیگر سماجی تنظیموں کے ساتھ ملکر منا رہے ہیں اور اس دن کے منانے کا مقصد معذور افراد کو گھروں سے نکال کر انہیں معاشرے کا حصہ بنانا ہے۔ معذوروں کی آواز معاشرے کے مختلف حلقوں تک پہنچانا ہے۔ ضیاء الرحمان نے پولیو کو چیلنج بھی کیا اور سماجی سرگرمیوں کے ساتھ اسپورٹس کا بھی حصہ ہیں کرکٹ کھیلتے ہیں ورزش بھی کرتے ہیں اور صحت مند زندگی گزار رہے ہیں۔وہ کہتے ہیں کہ معذوروں میں بے حد ٹیلنٹ چھپا ہواہے یہاں آپکو مصنف، کاریگر، پینٹر بھی ملیں گے لیکن ضرورت اس امر کی ہے معاشرہ اور ریاست انہیں مواقع فراہم کرے تاکہ وہ اپنا کردار بخوبی نبھا سکیں۔ وہ معذوروں کو اپنا پیغام میں کہتے ہیں کہ ہمت، حوصلہ میں بڑی طاقت ہوتی ہے اگر آپکے پاس یہ طاقت ہے تو دنیا کی کوئی طاقت آپکو روک نہیں سکتی۔معذور افراد کے ساتھ حکومتی ادارے کی ہمدردیاں کس حد تک کے ہیں اور اب تک انہوں نے اس پر کتنا کام ہے انہی اداروں میں سے ایک ادارہ سوشل ویلفئیر ڈیپارٹمنٹ ہے جسے سماجی اداروں کے ساتھ روابط کے علاہ معذوروں کی خدمت کا شعبہ سونپا گیا ہے۔ ادارے کی کارکردگی کا جائزہ لینے اور متعلقہ آفیسران سے بات کرنے کے لئے جب ڈائریکٹر جنرل سوشل ویلفیئر ڈیپارٹمنٹ جو کہ بروری روڈ کوئٹہ پر واقع ہے کا رخ کیا ۔دفتر پہنچنے پر چند بچوں کو چہل قدمی کرتے ہو ئے دیکھا جب ان سے بات کرنے کی کوشش کی تو وہ اشاروں سے بات کرنے لگے یعنی کہ کان اور زبان سے معذور تھے۔ تلاش کرنے پر ایک فرد ملا جو بول سکتا تھا پوچھنے پر پتہ چلا کہ ادارہ سوشل ویلفیئر ڈیپارٹمنٹ معذور افراد کے لئے ایک اسکول چلا رہی ہے جو کہ یہ اسی کے حصے ہیں غالباً چھٹی کا وقت تھا تو یہ بچے ٹہل رہے تھے اور ایک دوسرے کے ساتھ اشاروں کی زبان میں باتیں کر رہے تھے۔ انکی اپنی دنیا ہے اور یہ اپنی دنیا میں بہت خوش دکھائی دے رہے تھے وہی کہتے ہیں نہ کہ جب پردیس میں اپنی بولی کا کوئی بندہ مل جائے تو وہ دن سکون سے گزر جائے شاید انکے لئے بیرونی دنیا اتنا خوبصورت نہ ہو جتنا یہ اس دنیا میں محسوس کر رہے ہوں گے۔ اسی اثنا مجھے ایک شخص سفید چڑے کے سہارے میری طرف آتا ہو ا دکھائی دیاپوچھنے پر اپنا نام اللہ رکھا بتایا۔ اللہ رکھا 2007ء کو ہائی بلڈپریشر کی وجہ سے اپنی دونوں آنکھوں کی نعمت سے محروم ہو گئے۔ وہ بریئل ایکسپرٹ کے طور پر نصاب مرتب کرتے ہیں اور جون 2014ء سے ادارے کے ساتھ وابسطہ ہیں اور IDSPکے تعاون سے بننے والی ٹرانسکرپشن لیب کے انچارج بھی ہیں وہ کہتے ہیں ۔ پہلے پنجاب اور سندھ کے نصاب پڑھائے جاتے تھے اب جبکہ یہ ادارہ خود نصاب تیار کر رہا ہے انگلش کا مضمون دسویں جماعت تک مکمل کر لیا ہے جبکہ اردو کے مضامین پر کام جاری ہے۔ ادارے کی کارکردگی کے حوالے سے جب ڈپٹی ڈائریکٹر محمد حنیف رند سے پوچھا گیا تو انکا کہنا تھا۔mazoor2 ’’ہمارے ادارے کا کام ڈسٹرکٹ اور ڈویژنل لیول پر معذوروں کی رجسٹریشن کروانا ہوتا ہے اسی کی بنیاد پر انہیں معذوری کی سرٹیفکیٹ اور شناختی کارڈ کا اجراء ہوتا ہے۔ اسکے علاوہ ادارے کی جانب سے انہیں ویل چیئر، ٹرائی سائیکل، سفید چھڑی، ایئرانگیٹ جبکہ وزیر اعلیٰ بلوچستان کے فنڈ سے ٹرائی موٹر سائیکل فراہم کئے جاتے ہیں۔ کوئٹہ کی سطح پر معذور بچوں کے لئے اسپیشل ایجوکیشن کمپلیکس قائم کر دی گئی ہے جس میں 500کے قریب بچے پڑھتے ہیں۔ جنہیں میٹرک تک تعلیم دی جاتی ہے، جبکہ 70کے قریب بچے ایسے ہیں جنکا گھر دیگر اضلاع میں واقع ہونے کی وجہ سے انہیں بورڈنگ کی سہولت بھی فراہم کی جاتی ہے۔ جبکہ ادارہ انہیں ہنر سکھانے کے لئے کشیدہ کاری، کمپیوٹر، سلائی کڑائی کے مراکز بھی موجود ہیں اسکے علاوہ تین ڈویژن تربت، خضدار اور سبی میں بھی اسپیشل بچوں کے لئے اسکول قائم کر دی گئی ہے‘‘۔ محکمہ سوشل ویلفیئر ڈیپارٹمنٹ کے ذیلی دفاتر ڈویژن اور ضلعی سطح پر موجود ہیں اب تک کتنے معذوروں کو رجسٹرڈ کیا جا چکا ہے تو اس سوال کا جواب محمد حنیف تقریباً 3000بتاتے ہیں۔ یہ ایک ایسی فگر ہے جس سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ یہ محکمہ ابھی تک معذوروں کا اعداد و شمار جمع نہ کراسکا تو اسکے پاس معذوروں کے لئے وہ کونسی پالیسی ہوگی جو انہیں سماج کا حصہ بنانے میں اپنا کردار ادا کر سکے۔ ثناء اللہ مری کوہلو سے تعلق رکھتے ہیں مادر شکم سے آنکھوں سے معذور ہیں لیکن ملتان سے تعلیم حاصل کرکے اسکول میں بطور استاد مقامی اسکول میں خدمت سرانجام دے رہے ہیں اسکے ساتھ ساتھ گزشتہ 12سال سے وہ معذوروں کی فلاح و بہبود میں مصروف عمل ہیں انکی تنظیم آل ڈس ایبل آرگنائزیشن (ADO)کوہلو اور بارکھان میں کام کر رہی ہے انکے مطابق اب تک انکے پاس رجسٹرڈ معذوروں کی تعداد جس میں ذہنی و جسمانی شامل ہیں 245ہے وہ علاقے کی معذوروں کی تعداد کو اس سے کئی گنا زیادہ بتاتے ہیں وہ کہتے ہیں کہ انکے پاس وسائل نہ ہونے کی وجہ سے وہ گھر گھر جاکر انکی رجسٹریشن کروانے سے قاصر ہیں۔ میں نے انکے سامنے سوال رکھا کہ سبی میں محکمہ سوشل ویلفیئر کا اسپیشل ایجوکیشن اسکول ہے تو مقامی لوگ اپنے بچوں کو وہاں تعلیم کیوں نہیں دلواتے۔ تو انکا کہنا تھا کہ اسکول تو موجود ہے لیکن وہاں استاد ہی نہیں تو صرف بلڈنگ کھڑی کرنے سے تعلیم تو نہیں دی جاتی۔ وہ کہتے ہیں کہ حکومت کی فرض بنتی ہے کہ وہ ہر ضلع میں معذوروں کے لئے اسکول اور دیگر سہولیات کی فراہمی کے لئے اقدامات اٹھائے تاکہ معذوروں کا اعتماد بحال ہو اور ہر علاقے میں سماجی تنظیموں کی خدمات لینے کے لئے انہیں خصوصی بچوں کو تعلیم کی فراہمی کی زمہ داری سونپیں اور اسکے لئے حکومتیں معاونت کا کردار ادا کر سکیں۔انہوں نے کہا کہ اگر سبی میں واقع اسپیشل ایجوکیشن سینٹر کو ہماری تنظیم کے حوالے کیا جائے تو یقیناًتنظیم اسے فعال کرنے میں اپنا کردار ادا کرے گی۔ جہانگیر خان جنہیں بچپن میں پولیو ہو گیا تھا اور ایک ٹانگ سے معذور ہیں۔ انہوں نے نہ صرف جدوجہد کرکے تعلیم بھی حاصل کی اور مختلف شعبوں میں اپنی محنتوں کا لوہا بھی منوایا ہے انہیں نے بلوچستان یونیورسٹی کامرس ڈیپارٹمنٹ سے اپنا ماسٹر کیا ہے۔اسکے علاوہ ایک سماجی ادارے میں بطور سیکرٹری اور اخباری شعبے میں اپنی خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔ جو انکی صلاحیتوں کا منہ بولتا ثبوت ہے وہ کہتے ہیں ’’ معاشرے میں افراد باہم معذوروں کے لئے اب تک کوئی کام نہیں کیا گیا ہے۔ معذور افراد نے اپنے حقوق کے لئے خود آواز بلند کی ہے۔ ٹرانسپورٹ، شاپنگ مال، تعلیمی مراکز سے لیکر مساجد تک معذوروں کے لئے کوئی سہولت پیدا نہیں کی گئی ہے اور یہی وجہ ہے کہ معذوروں کی رسائی اداروں تک ممکن نہیں ہوتی‘‘۔ وہ کہتے ہیں کہ معذور افراد کو گھر کی طرف سے حوصلہ افزائی کی اشد ضرورت ہوتی ہے۔ اگر گھر سے حوصلہ افزائی نہ ملے تو معاشرہ ویسے بھی انہیں نظرانداز کرتا ہے۔ جب ان سے سوال کیا گیا کہ معاشرے میں کام کرنے والی معذوروں کی تنظیمیں معذور افراد ہی چلا رہے ہیں تو این جی او سیکٹر اس جانب توجہ کیوں نہیں دیتی۔ تو انکا کہنا تھا کہ’’ این جی اوز کو پروجیکٹ سے ہی کام ہوتا ہے جبکہ ایک معذور کے دکھ اور تکلیف کو ایک معذور ہی سمجھ سکتی ہے اور یہی وجہ ہے کہ ان اداروں کو چلانے والے افراد معذور ہی ہوتے ہیں‘‘۔ ہمارے معاشرے میں خواتین کے رائے کو بہت کم اہمیت دی جاتی ہے اور فیصلوں میں انکی شرکت سازی پر پابندی ہوتی ہے اور انہیں باورچی خانوں تک محدود کی جاتی ہے انکی حقوق پر بہت کم آواز اٹھائی جاتی ہے جبکہ انکی آواز گھر کی چاردیواری کے اندر دم توڑدیتی ہے۔ لیکن اگر کوئی خاتون معذور ہو تومعاشرے میں اسکی اہمیت کو اور بھی نظرانداز کردیا جاتا ہے اور وہ عمر بھر اپنے احساسات کو اسی کمرے کے اندر سمونے کی کوشش کرتا ہے۔ لیکن معاشرے میں ایسے خواتین کی بھی کمی نہیں جنہوں نے معذوری کو کبھی بھی اپنے حوصلوں کے سامنے دیوار بننے نہیں دیا بلند حوصلوں کے ساتھ نہ صرف تعلیمی اداروں میں قدم رکھی اور کامیابی نے انکے قدم چھومے ۔ انہی خواتیں میں سے سبی سے تعلق رکھنے والی فوزیہ لونی ہیں۔ وہ 9ماہ کی تھیں کہ پولیو کا شکار ہو گئیں دونوں ٹانگوں سے معذوری کے باوجود انہوں نے اپنی تعلیم کا سلسلہ جاری رکھا۔ انہوں نے اسلامیات اور ایجوکیشن میں ماسٹر کی ہے۔ اور اب ایم فل کرنے کا ارادہ رکھتی ہیں۔ اور ساتھ ساتھ مقامی این جی او کے ساتھ کام بھی کر رہی ہیں۔ معذور خواتین پر 2ہفتے کا پروگرام جو کہ USAمیں ہوا تھا اس میں انہوں نے شرکت کی تھی اور آج بھی مختلف اداروں کے پروگرام کو اٹینڈ کرتی ہیں۔ جب ان سے سوال کیا گیا کہ ایک خاتون پھر ٹانگوں کی معذوری کیسے جدوجہد کی اور زندگی میں آگے بڑھے ’’ میری خاندان تعلیم یافتہ ہے اسلئے مجھے اپنا تعلیم حاصل کرنے میں اتنی دشواریوں کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔ گریجویشن کے بعد جب مجھے ایم اے میں ایڈمیشن لینے کی سوجھی تو بے شمار مسائل سامنے آگئے لیکن ایڈمیشن لینے کے بعد آہستہ آہستہ مسائل حل ہونا شروع ہوگئے۔ اس سلسلے میں پرنسپل نے بھی مدد کی اور ادارے کے اندر ریمپ بنوائے گئے جسکی وجہ سے مجھے وہیل چیئر کے ذریعے ایک جگہ سے دوسری جگہ جانے میں کوئی دقت پیش نہیں آتی تھی۔ پاکستا ن کی نسبت باہر کے ممالک میں معذوروں کو سہولیات فراہم کی گئی ہیں امریکہ میں دوران وزٹ میں نے بسوں ، ہسپتالوں، و دیگر اداروں میں معذوروں کو سہولیات فراہم کی گئی تھیں لیکن یہاں پاکستان میں ایسا کچھ نہیں اور اس سسٹم کو دیکھ کر دل دکھتا ہے کہ معاشرے نے معذوروں کو آگے جانے کے لئے کتنی barrierکھڑی کر دی ہیں‘‘ وہ کہتی ہیں کہ حکومت کی جانب سے جو2فیصد کوٹہ ملازمت کا رکھا گیا ہے وہ معذوروں کو ملتا نہیں ہے اور نہ ہی معاشرہ اس حوالے سے سنجیدہ ہے کہ وہ معذوروں کے لئے کوئی راستے بنائے جن سے انکے لئے آسانیاں پیدا ہوں۔ انہیں معاشرے سے یہ گلہ ضرور ہے کہ معاشرے نے کبھی انہیں راستہ فراہم نہیں کی بلکہ جھوٹی تسلیاں دیتے رہے۔وہ کہتی ہیں کہ معذور مرد و خواتین کسی سے کم نہیں معاشرے نے جو خاردار تار معذوروں کے لئے کھڑی کی ہیں انہیں ہٹائے اور انہیں مواقع فراہم کرے تو دیکھیں معذور اپنا کردار ادا کریں گی۔ محمد کرامت اللہ کوئٹہ کے رہائشی ہیں اورادارہ HOSTکے سربراہ ہیں۔1999وہ بھی روڑ ایکسیڈنٹ کے سبب معذور ہو گئے تھے۔ اس حادثے نے اس سے بہت کچھ چھین لیا۔ neckانجری کے سبب گردن کے مہرے ٹوٹ گئے اور جسم کے زیادہ تر حصے نے کام کرنا چھوڑ دیا تھا۔لیکن انہوں نے ہمت نہیں ہاری اور پنا جہد مسلسل جاری رکھا اور آج خود فلاحی تنظیم کے سربراہ ہونے کے ساتھ ساتھ اسکول میں ٹیچر بھی ہیں۔ محمد کرامت اللہ ایک جگہ سے دوسری جگہ جانے کے لئے وہیل چیئر کا استعمال کرتے ہیں تو میں نے ان سے پوچھا کہ آپ خود معذور ہیں تو معذوروں کی خدمت کا خیال کیسے آیاتو انکا کہنا تھا۔’’ ٹریفک حادثے نے میری زندگی کی قیمتی بہاریں چھین لی تھیں۔7سال کا عرصہ بستر پر گزارنے کے بعد میرے اندر بہت ہی چڑچڑاپن پیدا ہو گئی تھی۔ تو ؒ خاندان نے الیکٹرک ویل چیئر لے کر دے دی جسکے سہارے باہر جانے کا موقع ملا۔ پھر آہستہ آہستہ سوچ پیدا ہو گئی کیوں ملازمت ڈھونڈ نہ لوں ۔ ملازمت ڈھونڈنے کے لئے بہت سے جگہوں پر ہاتھ پاؤں مارے تو کہیں نوکری نہیں ملی تو کسی ادارے میں بطور ٹرینی کام کرنا شروع کیا تو خالی پوزیشن بننے کی وجہ سے مجھے ملازمت مل گئی اس دوران میں نے اپنی گریجویشن مکمل کی۔ پروجیکٹ ختم ہونے کی وجہ سے پھر سے بے روزگار ہوا2011کو اپنی این جی او HOSTکو رجسٹرڑ کروایا۔ اور اسی ادارے کی توسط سے معذوروں میں شعور و آگاہی کے پروگرام منعقد کروائے جنکا مقصد معذوروں کو انکے حقوق کے حوالے سے آگاہی فراہم کرنا تھا اور اس ادارے کی توسط سے معذوروں کے اندر اپنے حقوق اور ان پر بننے والی پالیسیوں کے حوالے سے آگاہی مل چکی ہے ۔اسکے علاوہ محکمہ بیت المال کے تعاون سے معذوروں کو ویل چیئر کی فراہمی عمل میں لائی جا چکی ہے۔‘‘ کرامت اللہ نے 2015ء کو اپنا ماسٹر اسپیشل ایجوکیشن میں کیا ہے اسے اس ادارے کو چلانے کے ساتھ ساتھ معذورون خے حوالے سے بے آگاہی بھی ملی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ معذوروں کے ساتھ معاشرے کا رویہ اب تک درست نہیں رہا ہے اسلئے اس رویے کے خاتمے کے معذوروں کو خود باہر نکلنا ہوگا۔پنجگور سے تعلق رکھنے والے مجاہد علی 1999کو پیدا ہوئے 6 ماہ کی عمر میں معذوری کا شکار ہو گیا جب ڈاکٹروں نے انکا علاج ٹھیک طریقے سے نہیں کیا مجاہد کی جسم کا ایک حصہ کام نہیں کرتا۔ہم نے انکے والد پروفیر محمد حسین جو کہ ڈگری کالج پنجگور کے پرنسپل ہیں سے جاننے کی کوشش کی ۔ایک والد کی کیا احساسات ہوتے ہیں جب وہ اپنے بچے کو معذوری کی حالت میں دیکھتا ہے اور والدین کا رویہ بچے کے ساتھ کس قسم کی ہوتی ہے تو اس پر ان کا کہنا تھا۔ ’’ دکھ تو ہوتا ہے کہ دوسرے بچے کھیل رہے ہوتے ہیں وہ اس میں شامل نہیں ہوتا لیکن میں نے آج تک اسے یہ احساس نہیں دلایا ہے کہ وہ معذور ہے میں جہاں بھی جاتا ہوں اسے اپنے ساتھ لے جاتا ہوں۔ اور مختلف پرورگراموں میں وہ میرے ساتھ ہوتے ہیں اور میں اسکو ساتھ لے جاتے ہوئے شرم محسوس نہیں کرتا۔ یہی وجہ ہے میرے دوست اور احباب مجاہد کو اہمیت دیتے ہیں اور میں معذور افراد کے والدین کو پیغام دیتا ہوں کہ کہ معذور بچے کو وہی محبت دیں جو دیگر کو دیتے ہیں کیونکہ یہ بھی ہمارا حصہ ہیں جب خاندان ہی اس بچے کو اہمیت نہ دے تو باہر کی دنیا اسے اور دکھ پہنچاتی ہے۔ ‘‘پروفیسر محمد حسین کا کہنا ہے کہ مجاہد کے ساتھ اسکا رویہ دیگر بچوں کی نسبت زیادہ اچھا ہے وہ کہتے ہیں کہ انکی خواہش ہوتی ہے کہ مجاہد کو بھی کسی اسپیشل اسکول میں داخلہ دلوادوں لیکن علاقے میں اسپیشل اسکول نہ ہونے کی وجہ سے یہ خواہش پورا نہیں کر پا رہا ہوں وہ سمجھتے ہیں کہ حکومت نے معذور افراد کی طرف کوئی توجہ ہی نہیں دی ۔ معذور افراد کے لئے تعلیمی درگاہوں کا قیام اور مواقع پیدا کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ معاشرے میں معذوروں کو اپنانے کی ضرورت ہے انکے راستے میں بننے والی رکاوٹوں کو دور کرنا ہوگا۔ انکے لئے مواقع پیدا کرنے ہوں گے۔ انہیں علمی صنعت سے مالامال کرنا ہوگی۔ معاشرے سے زیادہ اس خاندان کو بھی معذور فرد کو اہمیت دینی ہوگی جس خاندان میں کسی معذور نے جنم لیا ہے۔ بسا اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ ایک بچے کو زیادہ تو دوسری کو کم پیار دینے کی وجہ سے بچوں میں تفریق اور احساس کمتری کی فضاء قائم کی جاتی ہے گھر کے افراد کو معذور شخص کے ساتھ بھی اپنا رویہ بہتر طریقے سے اپنانے کی ضرورت ہوتی ہے۔ ورنہ معذور سے زیادہ حساس انسان شاید ہی کوئی ہو کیونکہ ایک تو اسکی معذوری اور دوسرا انسانی رویہ بھی معذوروں کے احساسات کو مجروح کرنے کے لئے کافی ہوتے ہیں۔ معاشرے میں ایسے افراد کی کمی نہیں جنہوں نے محنت اور لگن سے معذوری کو شکست دیکر معاشرے میں اپنا مقام بنایا۔ بہت سی رکاوٹیں حائل تھیں لیکن انہوں نے ان رکاوٹوں کو توڑا اور آگے نکل گئے۔ یہ ان چند افراد کی کہانی ہے جنہوں نے مایوسی کو اپنے قریب آنے نہیں دیا انہیں انکی خاندان نے بھی آگے بڑھنے کے لئے مواقع پیدا کئے لیکن نہ جانے ایسے کتنے معذور افراد ہیں جو کمروں میں بند سلاسل قید کاٹ رہے ہیں۔ ریاست کی زمہ داری ہے کہ وہ معذوروں کے لئے مختص کی گئی 2% کوٹہ سسٹم پر عملدرآمد کرے۔ بلکہ جسطرح خواتین اور اقلیتوں کا کوٹہ 5%کر دیا گیا ہے نہ صرف معذوروں کا کوٹہ بڑھا کر 5%کر دیا جائے۔بلکہ اسکے ساتھ ساتھ ان پر عملدرآمد بھی کیا جائے۔ تعلیمی اداروں، ہسپتالوں، ٹراسپورٹیشن سسٹم ، پبلک پارک تک رسائی آسان بنائی جائے۔ اسکے ساتھ ساتھ سوشل ویلفیئر ڈیپارٹمنٹ پر بھی زمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ معذوروں کے حوالے سے درست اقدامات اٹھائے۔ عالمی دن کے حوالے سے ایسے افراد کی کہانیوں کو آپکے سامنے پیش کرنے کا بنیادی مقصد معذوروں کی اہمیت سے آگاہی فراہم کرنا تھا کہ معذور بھی کسی سے کم نہیں اگر معاشرے میں معذوروں کو اتنی جگہ فراہم کی جائے جتنا عام فرد کو ریاست فراہم کرتی ہے تو یقیناًیہ اپنا مثبت کردار ادا رکریں گے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ انکے احساسات کو سمجھنا ہوگا۔ کیونکہ جس جسم میں دل ہوتی ہے وہ دھڑکتا بھی ہوگااور اس میں احساسات کے جذبات بھی ہوں گے۔اور اسی جذبے کی ایک کڑی ہمیں فارسی میں بننے والی مجید مجیدی کی فلم The color of Paradiseمیں دکھائی دیتا ہے کہ والدہ کے سائے سے محروم نابینا بچہ والد کے ناروا برتاؤ کا شکار ہو جاتی ہے جبکہ بچے کے احساسات لائق تحسین ہوتے ہیں۔