کوئٹہ : معذوروں کے عالمی دن کے مناسبت سے سماجی تنظیموں کی جانب پروگرام “Break Bariers, Open Door” کے عنوان سے بوائے اسکاؤٹ میں منعقد ہوا۔ اس پروگرام کے مہمان خاص مشیر خزانہ خالد لانگو تھے۔ پروگرام میں مختلف سماجی تنظیمیں کوئٹہ آن لائن، دوست، ہوسٹ، ٹی ایس او اور دیگر اداروں کا اشتراک حاصل تھا معذور افراد کی بڑی تعداد نے اس میں شرکت کی۔ خالد لانگو نے شرکاء سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہم جس معاشرے میں رہ رہے ہیں اس میں معذوروں کو اہمیت ہی نہیں دی جاتی جبکہ اسکے مقابلے میں آپ یورپ یا مغرب دیکھیں تو وہاں معذوروں کے رسائی کے مواقع موجود ہیں۔ انہوں نے کہا کہ قلات میں گورنمنٹ کی جانب سے ایک ہسپتال بنائی جا رہی ہے جس میں معذوروں کے لئے ریمپ بھی بنائے جا رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ فنانس ڈیپارٹمنٹ کی جانب سے مشتہر شدہ آسامیوں پر معذوروں کے جاب کوٹہ پر مکمل درآمد جائے گا۔ اس موقع پرانہوں نے معذوروں پر کام کرنے والی سماجی اداروں کے لئے 1کروڈ جبکہ خارن سے تعلق رکھنے والی کینسر کے مریض بی بی حاجرہ کے لئے 20لاکھ روپے کا اعلان بھی کیا۔پروگرام میں کوئٹہ آن لائن کے سربراہ ضیاء الرحمان نے پریزینٹیشن پیش کرتے ہوئے کہا کہ انکا ادارہ سماجی رابطے کا اہم ذریعہ ہے اس پلیٹ فارم کے ذریعے سماج میں تبدیلی لانے اور ٹیلنٹ کو آگے لانے میں اپنا کردار ادا کر رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ انکا ادارہ معذوروں کے فلاح کے لئے بھی کام کر رہی ہے۔ جس میں بیت المال کے تعاون سے انہیں ویل چیئر کی فراہمی بھی شامل ہے۔ TSOکے ریاض بلوچ نے کہا کہ معذوروں کے لئے ملکی سطح پر پالیسی تو بنائی گئی ہے لیکن اس پر عملدرآمد نہیں کیا جا رہا۔ اسکے لئے ایک سوشل ماڈیول بنانے کی ضرورت ہے۔ کئی کتابوں کے مصنف فارس مغل نے کہا کہ ہم ایسا معاشرہ کیوں تشکیل دے رہے ہیں جو ہمارے لئے مشکلات پیدا کر رہی ہے اس سے بڑی ناانصافی اور کیا ہو سکتی ہے کہ معذوروں کے لئے قائم کیا جانے والا ادارہ جسکا آفس سیکریٹریٹ میں تیسری منزل پر واقع ہو لیکن اس تک رسائی معذور کے لئے نہ ہو۔سول سوسائٹی بلوچستان کے کنوینیئر سمیع زرکون نے کہا ک معذور ہماری سوسائٹی کا ہی حصہ ہیں اور یہ ہم سب سے بڑھ کر ہیں کیونکہ انہوں نے معذوری کے باوجود اپنا لوہا منوایا ہے۔صدارتی ایوارڈ جیتنے والی شازیہ بتول نے کہا کہ انکی پینٹنگ انکے احساسات کی عکاسی کرتی ہے۔ اور اقبال کی فارسی شاعری نے انہیں متاثر کیا اور انکی پینٹنگ کر ڈالی۔ فوزیہ لونی نے کہا کہ باہر کے ممالک میں معذوروں کے معذوروں والا رویہ رواں نہیں رکھا جاتا لیکن یہاں کا معاشرہ بالکل الگ ہے جس نے معذوروں کو قبول ہی نہیں کیا ہے اور یہی وجہ ہے کہ اداروں تک انکی رسائی مشکل ہے۔ بیبرگ بلوچ نے کہا کہ وہ تو سب کچھ کر سکتے ہیں معاشرے کی طرف سے مختص کردہ لفظ Disableبے معنی سی لگتی ہے۔ اسکے علاوہ دیگر شرکاء نے بھی اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ ایجوکیٹر اسکول کے بچوں نے ٹیبلو پیش کیا جبکہ عبداللہ نور نے معذوروں کی حالات زندگی کو اپنی پرفارمنس کے ذریعے نمایاں کیا ۔ اور شازیہ بتول کی بنائی ہوئی پینٹنگز اور فارس مغل کی نئی کتاب ہمجان بھی شرکاء کی توجہ کا مرکز بنے۔