|

وقتِ اشاعت :   December 7 – 2015

کوئٹہ: بلوچستان میں فروغ تعلیم کے نام پر ایک نام نہاد رجسٹریشن اینڈ ریگولیشن ایکٹ کسے بھی صورت میں قبول نہیں پرائیویٹ اسکولز کو اعتماد میں لئے بغیر راتوں رات ایک ادارے کو تمام اختیارات سونپی گئی ہیں جس سے پرائیویٹ اسکولز کومالکان کو خدشات لائق ہیں پریس کلب کوئٹہ میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے نیشنل ایجوکیشن کونسل کے چیئر مین سید خالد شاہ جنرل سیکرٹری عبدالحنا ڈپٹی چیئر مین خالد محمود اور دیگر نے کہا کہ ورلڈ بنک کے تعاون سے بلوچستان میں پرائیویٹ اسکولز کے مدد کیلئے بلوچستان ایجوکیشن فاؤنڈیشن کا قیام عمل میں لایا گیاتھا مگر اس نام نہاد ایکٹ کے ذریعے محکمہ تعلیم کو نظر انداز کر کے اسی اداروں کو زیادہ اختیارات دیئے گئے اس ادارے میں اپنی اختیارات کا ناجائز فائدہ اٹھا کر بلوچستان کی دو ہزار دو سو ستر پرائیویٹ اسکولز کی رجسٹریشن غیر ضروری طور پر منسوخ کر کے دوبارہ رجسٹریشن کرانے کے احکامات جاری کیئے اور یہ بھی احکام جاری کیا ہے نو دن کے اندر رجسٹریشن نہ کرانے کی صورت مین اسکول کے سربراہ کو چھ ما قید اور پچاس ہزار روپے جرمانہ کئے جاسکتے ہیں انہوں نے کہا کہ مذکورہ اتھارٹی بھتہ کے عیوض کروڑوں روپے کما کر ایک استاد کو چھ ماہ کی سزا کیسے دے سکتی انہوں نے کہا کہ اس کالے قانون کے ذریعے انسپکٹر اپنی صوابدید کے مطابق چائے کسی ٹیچر کو سزا دے یا بخش دے انہوں نے کہا کہ موجودہ ایکٹ کی وجہ سے پرائیویٹ اسکولوں میں فیسز بھی بڑھا دیئے گئے جس سے والدین پر ایک بہت بڑا بوجھ پڑے گاانہوں نے کہا کہ اسکول کی رجسٹریشن منسوخ کرنے سے وہ طالبعلم امتحانات میں حصہ لینے سے محروم ہوجائیں گے جسے چالیس ہزار بچوں کا مستقبل خطرے میں پڑگیا ہے جس کی تمام تر ذمہ داری بی ای ایف اور حکومت بلوچستان پر عائد ہوگی انہوں نے موجودہ حکومت سے مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ بلوچستان کے عوام کی بہتر تعلیم مفاد کو مد نظر رکھتے ہوئے اس ایکٹ کو فوری طور پر منسوخ کیا جائے تاکے بلوچستان کے پرائیویٹ اسکولز اپنی تعلیمی سرگرمیاں دوبارہ شروع کرسکے بصورت دیگر انہیں اسکولوں میں زیر تعلیم بچوں کی مستقبل تاریک ہونے سے محفوظ ہوسکے اور ایک اچھی زندگی بسر کرسکے۔