پاکستان ایک رضاکارانہ وفاقی ریاست ہے اور اس وفاق کو وفاقی اکائیوں نے تشکیل دیا ہے اور رضا کارانہ بنیاد پر تشکیل دیا ہے، رضا کارانہ بنیاد پر وفاق کو بعض اختیارات تفویض کیے گئے ہیں اسلئے ریاست وفاقی اکائیوں کا مرہون منت ہے ۔ ا سلئے اختیارات کا اصلی سرچشمہ صوبوں یا وفاقی اکائیوں کو ہونا چائیے نہ کہ مرکزی حکومت یا اس کے اداروں کو ۔ ایسی صورت میں مرکزی حکومت اوراس کے اداروں کو بہت زیادہ طاقتور نہیں ہونا چائیے کہ وہ یہ تاثردیں کہ پاکستان ایک رضا کارانہ وفاق نہیں ہے یا وفاقی ملازمین کی ایک کالونی ہے اورصوبوں کے عوام ان کے ماتحت یا غلام ہیں ۔ اس لئے قرارداد پاکستان میں یہ واضح طورپر درج کیا گیا ہے کہ صوبے پاکستانی ریاست کے اندر رہتے ہوئے ’’ مکمل طورپر آزاد اور خودمختار ‘‘ ہوں گے۔ اس کا مقصد صرف مکمل صوبائی خودمختاری ہے کہ وفاقی ملازمین صوبوں کے ساتھ زیادتی نہ کریں اور صوبائی اختیارات کا احترام کریں اور اس میں مداخلت سے گریز کریں ۔مگر وفاقی یا مرکزی حکومت پر افسر شاہی کے قبضے کے بعد حالات میں تبدیلی لائی گئی خصوصاً لیاقت علی خان کے قتل کے بعد نوکر شاہی نے ملک پر قبضہ کیا اس دن سے لے کر آج تک نوکر شاہی بہت زیادہ مضبوط ہوگیا ہے اس نے وفاق کو زیادہ نقصان پہنچایا ہے خصوصاً چھوٹے صوبوں کے عوام کے ساتھ زیادتی کی گئی اوریہ زیادتی ابھی تک ہورہی ہے یہ امتیازی سلوک زندگی کے ہرشعبہ میں جاری و ساری ہے ۔ ایسے میں سیاسی اصلاحات کی زبردست ضرورت ہے ۔ سیاسی اور آئینی اصلاحات میں وفاق یادوسرے الفاظ میں وفاق کے پاس کم سے کم اختیارات ہونے چاہئیں اور زیادہ سے زیادہ اختیارات صوبوں یا وفاقی اکائیوں کے پاس ہونے چائییں تاکہ ان کو امتیازی سلوک کااحساس نہ ہو۔ پانچ سال قبل آئین میں ترمیم کی گئی تھی جس کو 18ویں آئینی ترمیم کا نام دیا گیا مگر ابھی تک اس ترمیم کے مطابق اختیارات صوبو ں کے حوالے نہیں کیے گئے بلکہ ابتداء سے یہ کوشش کی گئی کہ لوگوں کو یہ معلوم نہ ہو کہ صوبوں کو کتنے اختیارات دئیے گئے تاکہ وفاق اور وفاقی اداروں پر دباؤ نہ بڑھے کہ وہ تمام اختیارات صوبوں کے حوالے کریں ۔ جس وقت18ویں ترمیم پارلیمان سے پاس ہوگئی تو پاکستان کے تمام ٹی وی چینلوں نے اس کو مکمل طورپر بلیک آؤٹ کیا اور تمام چینل ثانیہ مرزا کی شادی اور ان کے گھر پر میراثیوں کے ناچ گانے ہر وقت دیتے رہے ۔ 18ویں آئینی ترمیم سے متعلق مقتدرہ نے اپنے شدید ترین نفرت کا اظہار کیا اور آج تک یہ بلیک آؤٹ ہے ۔ سیاسی رہنماؤں اورپارٹیوں پر لازم ہے کہ اس کی زیادہ سے زیادہ پبلسٹی کریں ۔ اپنے عوامی تقاریر میں لوگوں کو بتائیں کہ اس کے تحت صوبوں کے اختیارات میں کتنا اضافہ ہوا ہے اور یہ اختیارات آج تک صوبوں کے حوالے کیوں نہیں کیے گئے ۔ حالانکہ 1973کے آئین کی منظوری کے وقت بلوچستان نے نا م نہاد متفقہ آئین کو ویٹو کردیا تھا صرف دو ارکان اسمبلی نے اس کے حق میں ووٹ دیا تھا ، تین ارکان اسمبلی جن میں ڈاکٹر حئی بلوچ زندہ ہیں انہوں نے اس کے حق میں ووٹ نہیں دیا ۔ دوسرے الفاظ میں بلوچستان نے آئین کو ویٹو کردیا تھا۔ ا س خوف سے اسمبلی کے فلور پر حفیظ پیرزادہ نے اعلان کیا کہ آئین کی مشترکہ فہرست دس سال بعد صوبوں کے حوالے کی جائے گی مگر 18ویں ترمیم میں اس کے ایک حصے کو صوبوں کے حوالے کیا گیا ، یہاں بھی بد نیتی کامظاہرہ کیا گیا ۔ضرورت اس بات کی ہے کہ وفاقی اکائیوں کو مضبوط تر کیا جائے تاکہ وفاق کو کوئی خطر ہ نہ ہو ۔ اس کے لئے نیب کی تمام کارروائیاں صوبوں میں بند کی جائیں ، کیونکہ اس کا مقصد کرپشن کا خاتمہ نہیں بلکہ چھوٹے صوبوں کے ساتھ امتیازی اور ظالمانہ سلوک کو روا رکھنا ہے ۔ صوبے خود اپنے ملازمین اور رہنماؤں کا احتساب کریں ، پسند اور نا پسند کی بنیاد پر کسی کا احتساب نہیں ہونا چائیے ۔
وفاق احتسابی نظام ختم کردے
وقتِ اشاعت : December 7 – 2015