کوئٹہ: بلوچستان نیشنل پارٹی نے گوادر میگا پروجیکٹ سے متعلق سنگین تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے اس پر اسلام آباد میں آل پارٹیز کانفرنس منعقد کرانے کا اعلان کیا ہے۔ بلوچستان کے عوام اپنے وسائل کے مالک خود ہیں۔بلوچستان کی تقدیر کا فیصلہ کرنے والے بلوچستان کے نمائندوں سے انکی رائے ضرور لیں۔اور فیصلہ سازی میں انکی شرکت کو لازمی بنایا جائے۔ بلوچستان میں احساسی محرومی کی بدولت بغاوتیں جنم لیتی رہیں لیکن آج تک اس مسئلے کا حقیقی حل وفاق ڈھونڈ نہیں سکی۔ ان خیالات کا اظہار بلوچستان نیشنل پارٹی کے مرکزی صدر اختر جان مینگل نے اپنی رہائشگاہ پر ایک پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہی۔انہوں نے کہا کہ بی این پی کی حالیہ مرکزی کونسل سیشن جس میں پارٹی کے انتخابات ہوئے تھے اس کنونشن میں پارٹی کی جانب سے بلوچستان کی مجموعی صورتحال زیر غور آئی۔ جس میں پارٹی کی جانب سے یہ فیصلہ کیا گیا کہ گوادر کے اہم مسئلے کو زیر بحث لانا ہے۔ انہوں نے کہا کہ بلوچستان میں اس ترقی کی حمایت کبھی نہیں کریں گے جس ترقی کے ثمرات یہاں کے باشندوں کو نہ پہنچے۔ انہوں نے کہا کہ ترقی کے جو وعدے سابقہ ادوار میں بلوچستان کے عوام کے ساتھ کئے گئے ان پر آج تک عملدرآمد نہ ہو سکا۔ انہوں نے کہا کہ گوادر کے مستقبل کا فیصلہ یہاں کے نمائندوں کو اعتماد میں لئے بغیر کیا گیا اور جس وقت اس پر دستخط کئے جا رہے تھے تو وہاں گوادر کے چیرمین کے علاوہ کوئی عوامی نمائندہ موجود ہی نہیں تھا تو اس سے واضح ہوتا ہے کہ اس پروجیکٹ کو مکمل طور پر یہاں کے عوام سے چھپایا جا رہا ہے جس سے یہاں ایک بے چینی کی فضاء پیدا ہوئی ہے انہوں نے کہا کہ حکمرانوں نے سابقہ غلطیوں سے آج تک سبق نہیں سیکھی ہے۔ اور انہی غلطیوں کا شاخسانہ پورے ملک کو اٹھانا پڑا اور کئی بغاوتوں نے جنم لیا۔انہوں نے کہا کہ وہ ایسی ترقی کی کبھی حمایت نہیں کرتے جسکی وجہ سے مقامی افراد کو اقلیت میں تبدیل کیا جائے اور ترقی کا پھل کوئی اور کھائے۔انہوں نے کہ بلوچستان میں جو ریونیو پیدا ہوتی ہے وہ بلوچستان کے عوام کو نہیں ملتی 1953کو بلوچستان سے گیس کی دریافت سے 1963تک پورا ملک استفادہ حاصل کر چکا تھا لیکن جہاں سے گیس دریافت ہوئی ہے وہاں کے باسی اس سے محروم ہیں۔ایک سوال کے جواب میں کہ گوادر کاشغر روٹ بلوچستان کی ترقی میں کتنا اہم ہے اس پر انہوں نے کہا کہ ہمارا مسئلہ روٹ نہیں بلکہ زمین کے مالک کی ملکیت کو تسلیم کرنا ہے اگر گوادر کی سرزمین پر بلوچستان کے عوام کی حاکمیت کو تسلیم نہیں کیا جاتا تو یہ روٹ بھی بے معنی سی لگتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ 46بلین ڈالر انویسٹمنٹ کی بات تو کی جاتی ہے لیکن یہ خرچ کہاں کئے جاتے ہیں اور بلوچستان کو اسکے حوالے سے کتنا فائدہ ہوگا یہ ابھی تک ابہام میں ہے۔انہوں نے کہا کہ اسمبلی میں بیٹھے نمائندوں کو چاہئے کہ اخبارات کی سطح پر محدود ہوجانے کے بجائے عملی اقدامات کے طور پر وفاق سے دو ٹوک الفاظ میں اپنا مؤقف پیش کریں۔ انہوں نے کہا کہ بی این پی ساحل وسائل اور اختیارت کے مؤقف سے کبھی بھی پیچھے نہیں ہٹی ہے اور CPEC کے حوالے سے دیگر جماعتوں کو اعتماد میں لیکراسلام آباد میں آل پارٹیز کانفرنس بلائیں گے۔جسکی تاریخ کا بہت جلد اعلان کیا جائے گا۔ اس موقع پر انکے ہمراہ سینیٹر ڈاکٹر جہانزیب جمالدینی، آغا حسن بلوچ، ولی کاکڑ، نصیر شاہوانی اور دیگر موجود تھے۔