کوئٹہ : گورنر بلوچستان محمد خان اچکزئی نے کہا ہے کہ بلوچستان کو تاخیر سے صوبہ کا درجہ ملا جس کے نتیجے میں یہاں کے لوگ بہت دیر تک ترقی کے عمل میں شریک ہی نہ ہوسکے او ربلوچستان دوسرے صوبوں کے مقابلے میں ترقی کے سفر میں پیچھے رہ گیا تاہم انہوں نے کہا کہ اب صوبے کی پسماندگی دور کرنے کی سنجیدہ کاوشیں ہورہی ہیں اور خاص طور سے گذشتہ تین سال سے موجودہ حکومت نے صوبے میں ہمہ گیر اور بامعنی ترقی کے عمل کا آغاز کررکھا ہے۔ انہوں نے کہا کہ قومی تاریخ میں پہلی بار ادارے تعمیر ہوتے نظر آرہے ہیں۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے ایئرکموڈور مصطفی انور کی قیادت میں ملاقات کے لئے آنے والے پی اے ایف ایئروار کراچی (PAF-Air War Collage) کے زیرتربیت آفیسران کے وفد سے ملاقات کے دوران کیا۔ وفد کے ارکان نے بلوچستان میں جاری ترقیاتی عمل، سیکورٹی کے مسائل اور بلوچستان سے متعلق مختلف پہلوؤں پر سوالات کئے جن کے گورنر بلوچستان نے سیرحاصل جواب دیئے۔ چین پاکستان اقتصادی راہداری سے متعلق پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں گورنر نے کہا کہ سی پیک منصوبہ نہ صرف بلوچستان بلکہ پاکستان کے عوام کے فائدے میں بلکہ خطے کی تقدیر بدل کر رکھ دے گا۔ انہوں نے کہا کہ چین کا روڈ اینڈ بیلٹ پروجیکٹ عالمگیر اہمیت کا حامل ہے اور یقیناًدوست ملک کے تعاون سے پاکستان سب سے زیادہ مستفید ہوتے ہوئے اپنی معیشت اور امیج کی غیرمعمولی بحالی کو یقینی بناسکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ بین الاقوامی سطح پر ہونے والی تبدیلیوں کے نتیجے میں بلوچستان کو غیرمعمولی اہمیت حاصل ہوئی ہے اور آج تمام دنیا کی نظریں بلوچستان پر مرکوز ہیں۔ انہوں نے کہا کہ چین کے علاوہ روس بھی پاکستان میں گہری دلچسپی لے رہا ہے اور یہ بات یقینی ہے کہ آنے والے دنوں میں پاکستان، چین، روس اور وسط ایشیاء کے ساتھ نہ صرف مربوط ہوگا بلکہ بین الاقوامی برادری میں قابل قدر اور پروقار مقام حاصل کرے گا۔ انہوں نے کہا کہ بی آرآئی سی ایس اور شنگھائی تعاون تنظیم میں پاکستان کی شمولیت اسی سلسلے کی کڑی ہے۔ گورنر نے کہا کہ ان نتائج کے حصول کے لئے بلوچستان میں ماحول کو پرامن اور سازگار بنانا شرط اولین ہے۔ گورنر بلوچستان نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ بلوچستان کی صورتحال کو بیان کرنے کے لئے ایسی اصطلاحات استعمال نہیں کی جانی چاہئیں جس سے شورش کا تاثر پیدا ہوتا ہو۔ حقیقت یہ ہے کہ برطانوی راج سے اس خطے میں چھوٹی موٹی شکایات اور ان پر اس قسم کے ردعمل کا سلسلہ جاری ہے۔ انہوں نے کہا کہ ناراض بلوچوں سے حکومتی شخصیات رابطے میں ہیں اور توقع ہے کہ معاملات خوشگور انداز میں طے پا جائیں گے۔ گورنر بلوچستان نے کہا کہ بلوچستان میں رہنے والے تمام لوگوں کو اس بات کا ادراک ہے کہ انہیں ایک صفحہ پر آنا ہی ہوگا۔ سرحدی امور سے متعلق ایک سوال کے جواب میں گورنر نے کہا کہ بلوچستان کی سرحدیں افغانستان اور ایران سے ملتی ہیں۔ طویل سرحد پر نظم وضبط قائم رکھنا نہایت مشکل ہے لیکن اب یہ کام خاصی کامیابی سے جاری ہے اور موجودہ حکومت کی کوششوں کے نتیجے میں ہم کہہ سکتے ہیں کہ سرحدوں پر صورتحال قابو میں رہے گی۔ پاک افغان تعلقات کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ دونوں برادر ملک ہیں اور ان کے مابین تاریخی اور ثقافتی رشتے موجود ہیں۔ گورنر بلوچستان نے کہا کہ بلوچستان قدرتی وسائل ومعدنیات سے مالا مال صوبہ ہے جبکہ اس کی آبادی ملک کی کل آبادی کا صرف پانچ فیصد ہے لیکن ضروری وسائل کی عدم دستیابی کے باعث ہم اپنی معدنیات خاص طور سے کوئلہ، ماربل اور کرومائیٹ کو قابل فروخت بنانے کے لئے دیگر صوبوں کو بھیجنے پر مجبور ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ضرورت اس امر کی ہے کہ بلوچستان میں ان معدنی ذخائر کو صفائی، تراش، خراش کے لئے صوبے کے اندر ہی پلانٹس لگائے جائیں تاکہ صوبے کے عوام اپنے قدرتی وسائل سے بھرپور استفادہ کرسکیں۔ انہوں نے کہا کہ تربیتی ادار قائم کرکے ہنرمند مزدوروں کی قلت کے مسئلے پر قابو پایا جاسکتا ہے۔ آخر میں وفد کے سربراہ ایئرکموڈور مصطفی انور نے گورنر بلوچستان کا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ بلوچستان کی ترقی پاکستان کی ترقی ہے اور ضرورت اس بات کی ہے کہ ترقیاتی عمل کو اس طرح منظم کیا جائے کہ اس سے زیادہ سے زیادہ فائدہ عام آدمی کو پہنچ سکے۔ اس موقع پر سیکریٹری داخلہ اکبر درانی اور پرنسپل سیکریٹری ٹو گورنر عبدالجبار بھی موجود تھے۔ آخر میں گورنر اور ایئرکموڈور کے درمیان یادگاری شیلڈ کے تبادلہ ہوا۔ اس موقع پرگورنر بلوچستان کی جانب سے وفد کے اعزاز میں ظہرانے کا بھی اہتمام کیا گیا۔