|

وقتِ اشاعت :   December 8 – 2015

بی این پی کے صدر اختر مینگل نے گزشتہ روز پارٹی فیصلوں کا اعلان ایک نیوز کانفرنس میں کیا جس میں ساحل اور وسائل پر صوبے کے مکمل اختیار کے مطالبے کو دہرایا اور اعلان کیا کہ وہ اس مسئلے پر ایک آل پارٹیز کانفرنس اسلام آباد میں بلا رہے ہیں جہاں پر وہ دوسری پارٹیوں کے رہنماؤں کو بلوچستان کے حالات سے متعلق معلومات فراہم کریں گے ۔ ساحل و وسائل پر صوبوں کی عمل داری ضروری ہے تاکہ مقامی لوگ نہ صرف اس کو کنٹرول کریں بلکہ ان کو عوام کی فلاح و بہبود اور ترقی کے لئے استعمال میں لائیں ۔ مگر زیادہ ضروری بات یہ ہے کہ صوبوں کی وسیع تر خودمختاری پر بات کی جائے اور اس پر رائے عامہ ہموار کی جائے تاکہ وفاق کی صوبوں میں مداخلت کو بند کردیا جائے اور صوبوں کو اپنے معاملات کو ٹھیک کرنے کا اختیار دیا جائے یا دوسرے الفاظ میں قیام پاکستان کے وقت جو وعدے کیے گئے تھے کہ صوبے مکمل طورپر پاکستان کے اندر رہتے ہوئے ’’آزاد خودمختار‘‘ ہوں گے۔ وفاق کے پاس صرف اور صرف دفاع اور خارجہ کے محکمے ہوں گے باقی اختیارات صوبوں کے پاس ہوں گے۔ یہ پیش کش پاکستان کے رہنماؤں نے صوبوں کو صرف اس لئے کی تھی کہ وہ رضا کارانہ طورپر وفاق پاکستان میں شامل ہوں اور یہ گارنٹی دی گئی کہ ان کے ساتھ کسی قسم کی زیادتی نہیں ہوگی ۔ دفاع اور خارجہ وزارت کے علاوہ تمام اختیارات صوبوں کے پاس ہوں گے ۔ سا لوں بیتنے کے بعد معاملہ اس حد تک پہنچ گیا ہے ، وفاقی اداروں کے ملازمین صوبوں کے منتخب رہنماؤں کو حکم نامے اور ہدایات جاری کرتے ہیں ۔ اپیکس کمیٹی کے نام پر سرکاری ملازمین کو وزیراعلیٰ کے ہم پلہ اختیارات کامالک بنا دیا گیا ہے جس کی مرضی ہے کہ کرپشن کے نام پر وسیع پیمانے پر گرفتاریاں کریں اور خوف و ہراس پھیلا ئے۔ جب تک صوبوں پر مقامی افراد اور رہنماؤں کی حکمرانی رہی تو پورے ملک میں کرپشن کا تصور تک موجود نہ تھا کرپشن اس وقت آسمان پر پہنچ گیا جب ون یونٹ بنا یا گیا اور پنجابی پولیس سندھ اور بلوچستان کے دور دراز علاقوں میں پہنچ گئی اور اپنے ساتھ چور‘ ڈاکو اور جرائم پیشہ افراد۔ ان علاقوں میں ’’ منظم جرائم ‘‘ کا آغاز کردیا گیا ساتھ ہی جھوٹے مقدمات قائم کیے جانے لگے اور اس سے بے تحاشا رشوت کا بازار گرام ہوا ۔ جب تک مقامی پولیس اور اہلکار تھے کرپشن زیرو تھی وجہ یہ ہے کہ باہر سے آنے والا اہلکار مقامی رسم و رواج اور روایات کا پابند نہیں ہے ۔ وہ اپنا گھر چھوڑ کر صرف لوٹ مار کے لئے سندھ اور بلوچستان میں آئے تھے خدمت کے لئے نہیں بلکہ وہ لوگ ماحول کو آلودہ کرنے آئے تھے اور اس میں کامیاب رہے ۔ غرض ہر شخص اپنے گھر یا صوبے کا ذمہ دار ہے ۔ وفاق صوبوں میں غیر ضروری اور مختلف حیلوں اور بہانوں سے مداخلت نہ کرے اور مقامی لوگوں کو اختیارات اور تربیت دے تاکہ وہ اپنا کام خود کریں ۔ پاکستان کے بانی اس بات کی یقین دہانی کراتے رہے کہ صوبے مکمل طورپر خودمختار ہوں گے اور ان کے معاملات میں مداخلت نہیں ہوگی ۔ وہ یہ جانتے تھے کہ پاکستان کسی سرزمین کا نام نہیں ہے ۔ یہ ایک رضا کارانہ وفاق ہے اس لئے وفاقی اکائیوں کو خوش رکھنا ضروری ہے تاکہ وفاق قائم و دوائم اور مضبوط رہے ۔ لہذا اس بات کی ضرورت ہے کہ صوبوں کو مزید اختیارات دئیے جائیں ۔ کسی بھی صوبے کے ساتھ امتیازی سلوک روا نہ رکھا جائے ۔ 18ویں ترمیم پر نہ صرف عمل کیاجائے بلکہ صوبائی خودمختاری میں اضافہ کیا جائے ۔ صوبوں کو ٹیکس لگانے کے اختیارات دئیے جائیں وفاقی ٹیکس کم سے کم او رصوبائی ٹیکس کے اختیارات زیادہ سے زیادہ ہوں تاکہ صوبے بھکاری نہ بن جائیں ، وفاق سے خیرات طلب نہ کریں بلکہ اپنے وسائل پر ان کا اختیار مکمل ہو ۔ تمام صوبوں کی مدد کی جائے تاکہ وہ بیرونی امداد اور قرضے وفاق پاکستان کے توسط سے حاصل کرسکیں ۔ یہ اعزاز صرف پنجاب کو دیا گیا ہے جو بیرونی ممالک سے براہ راست معاہدے کرتاہے ۔ چینی گزر گاہ کا معاملہ تو 46ارب ڈالر کا ہے اس میں سے کتنی رقم بلوچستان پر خرچ ہوگی یہ یقین کے ساتھ کوئی نہیں کہہ سکتا حالانکہ گوادر بلوچستان میں واقع ہے ۔واضح رہے کہ مکران کا ساحل کھلے سمندر میں ہے گوادر کے ساتھ اس کے تمام بندر گاہ گوادر طرز کی ہیں اگر یہ اختیار صوبے کو دیا گیا تو بلوچستان درجن بھر ایسی بندر گاہیں تعمیر کرسکے گا۔ وفاق پہلی بندر گاہ 67سال میں قائم نہ کر سکا