|

وقتِ اشاعت :   December 9 – 2015

*بلوچستان کا شعبہ ابلاغ کہاں کھڑا ہے اس نے کتنی ترقی کر لی ہے مزید اسے کتنا ترقی کرنا ہے ؟ شعبہ ابلاغ عامہ کا انتخاب کرنے والا فرد کیا توقعات لیکر آتا ہے اور فارغ ہونے کے بعد انہیں کیا کیا جتن کرنے پڑتے ہیں؟صحافتی ادارے کیا رول ادا کررہے ہیں۔ کیا بلوچستان میں ابلاغ عامہ نے اتنی ترقی کر لی ہے کہ یونیورسٹی سے فارغ التحصیل نوجوانوں کو پلیٹ فارم مہیا کرسکے یا میڈیا انڈسٹری اتنی وسیع ہے کہ نووارد طالبعلموں کو اس میں داخل ہونے کے لئے کم محنت کرنا پڑے۔ اور بلوچستان کا سب سے بڑا جامعہ یونیورسٹی آف بلوچستان میں اس سلسلے میں کیا کردار ادا کر رہی ہے؟ یہ اور بہت سے جنم لینے والے سوالات کو لیکر ابلاغ عامہ کے شعبے سے تعلق رکھنے والے استاد، شاگرد اور صحافتی نمائندگان کے سامنے رکھا اور انکے تاثرات جاننے کی کوشش کی۔ بلوچستان یونیورسٹی میں صحافتی درس و تدریس کا باقاعدہ آغاز سن 1987کو شعبہ ابلاغ عامہ کے سابق چیر پرسن پروفیسر سیمی نغمانہ کی سربراہی میں ہوا۔ اور اب تک سینکڑوں طالبعلم اس
team1ادارے سے فارغ التحصیل ہو چکے ہیں ۔میرا پہلا سوال کوئٹہ سے تعلق رکھنے والے فائنل ایئر کے طالبعلم اسداللہ درانی سے تھا کہ انہوں نے کیا سوچ کر یہ شعبہ جوائن کیا ؟ وہ کہتے ہیں ’’ BSCکرنے کے بعد میری خواہش تھی کہ میرا داخلہ ایم اے کمپیوٹر سائنس میں ہو جائے لیکن یہ خواہش ادھوری رہ گئی اور مجبوراً جرنلزم کے شعبے کا انتخاب کرنا پڑا‘‘ اسداللہ درانی کو اس شعبے سے کوئی دلچسپی نہیں وہ اس وقت وہ کمیشن کی تیاری بھی کر رہے ہیں انکا حصول ماسٹر کی ڈگری ہے ۔ وہ کہتے ہیں کہ اگر وہ اس فیلڈ کا انتخاب کر بھی لیں تو سینیئر صحافی انکے ساتھ تعاون نہیں کرتے اور اس فیلڈ میں اپنا مستقبل نہیں دیکھ رہے۔ پروفیسر یوسف مسیح گزشتہ25 سالوں سے بلوچستان یونیورسٹی کے شعبہ ابلاغ میں خدمات انجام دے رہے ہیں۔ وہ 2011سے 2014ء تک بطور چیئرمین میڈیا اینڈ جرنلزم ڈیپارٹمنٹ رہ چکے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ بلوچستان کی سطح پر شعبہ جات کو منتخب کرنے کے لئے ضروری ہے کہ نوجوانوں کی کیریئر کونسلنگ کی جائے جو یہاں موجود نہیں یہی وجہ ہے اکثر طالبعلم شعبوں کا چناؤ کرکے غلطی کر جاتے ہیں اور پھر عمر بھر انہیں پچھتانا پڑتا ہے۔ وہ سمجھتے ہیں اگر گریجویشن کی سطح پر اس مضمون کو رائج کیا جائے تب جا کر اس ادارے کو اچھے طالبعلم دستیاب آسکیں گے۔ ایک سوال کے جواب میں انکا کہنا تھاکہ بلوچستان میں میڈیا انڈسٹری اتنا وسیع نہیں کہ ہر فارغ التحصیل طالبعلم کو مواقع مل سکیں اور فارغ ہونے والے ہر طالبعلم کی خواہش بھی نہیں ہوتی کہ وہ اسی ادارے کا مستقل انتخاب کر سکے۔ وہ کہتے ہیں کہ حکومت بلوچستان کو یونیورسٹی کی جانب سے جرنلزم کا مضمون گریجویشن کی حد تک لاگو کرنے کے لئے پرپوزل دیا جا چکا ہے لیکن تاحال انکی جانب سے کوئی جواب نہیں آیاہے۔ شعبہ ابلاغ عامہ میں سالانہ داخلوں کے حوالے سے انکا کہنا ہے ہر سال 110کے قریب طالبعلم اس شعبے کا انتخاب کرتے ہیں جبکہ ڈراپ آؤٹ کا ریشو 15فیصد ہے۔ یوسف مسیح کا کہنا ہے بلوچستان یونیورسٹی کا شعبہ ابلا غ عامہ سالانہ ایک میگزین ’’ابلاغ‘‘ کے نام سے انگلش اور اردو دونوں زبانوں میں جاری کرتا ہے۔ جسے ڈیپارٹمنٹ انتظامیہ کی نگرانی میں شائع کیا جاتا ہے۔ اس میگزین میں ابلاغ عامہ کے طالبعلموں کے تحاریر شامل کئے جاتے ہیں۔ ڈیپارٹمنٹ میں کل 14مضامین پڑھائے جاتے ہیں۔ یونیورسٹی میں اس وقت 5 ماہر اساتذہ تدریسی عمل میں سرگرم عمل ہیں۔ جبکہ مزید 6اساتذہ کی ضرورت ہے۔ طلباء کی مہارت کو بڑھانے کے لئے میڈیا اینڈ جرنلزم ریڈیو سیکشن متعارف کرایا گیا ہے۔ HECکی جانب سے 7 کروڈ کی لاگت سے تعمیر ہونے والی اس سیکشن کا افتتاح وزیر اعلیٰ بلوچستان ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے نومبر2014ء کو کیا تھا۔ لیکن ایک سال گزر جانے کے باوجود تاحال اسے فنکشنل نہیں کیا جا سکا۔ اسکی عدم بحالی کی وجوہات بیان کرتے ہوئے پروفیسر یوسف مسیح کہتے ہیں کہ ریڈیو اسٹیشن کو چلانے کے لئے ٹیکنیکل اسٹاف کی ضرورت ہوتی ہے۔ جس میں اسٹیشن ڈائریکٹر، پروڈیوسر اور انجینیئرز شامل ہیں۔ جن کی تعیناتی تاحال عمل میں نہیں لایاجا چکا ہے۔جسکی بنا پر ریڈیو سیکشن کو فنکشنل نہیں کیا جا سکا ہے۔ شعبہ ابلاغ عامہ فائنل ایئر کی ایک اور اسٹوڈنٹ غزالہ جنکا تعلق ضلع ژوب سے ہے وہ اسداللہ درانی سے قدرے مختلف سوچ رکھتی ہیں وہ کہتی ہیں کہ بلوچستان کے مسائل کو میڈیا میں بہت کم اجاگر کیا جاتا ہے۔ اسی کو بنیاد بنا کر انہوں نے اس شعبے کا انتخاب کیا ہے انکی کوشش ہوگی کہ بلوچستان کے مسائل کو میڈیا کے ذریعے زیادہ سے زیادہ اجاگر کرنے میں وہ اپنی کردار ادا کرے۔ وہ سمجھتی ہیں کہ بلوچستان میں اس شعبے کو آج تک پروفیشنلزم کے طور پر نہیں لیا گیا ہے اسلئے یہ ادارہ بلوچستان میں اپنی ترقی نہیں کرسکا جتنا اسکا حق بنتا ہے۔ وہ اینکر پرسن بننے کے خواہشمند ہیں وہ مانتی ہیں کہ بلوچستان جیسے صوبے میں ایک خاتون کے لئے اس فیلڈ کا انتخاب یقیناًایک مشکل کام ہے لیکن انکی فیملی نے انہیں کافی سپورٹ کیا ہے۔بلوچستان یونیورسٹی سے فارغ التحصیل کئی ایسے نوجوان ہیں جنہوں نے صحافت کے بجائے دیگر شعبے کا انتخاب کیا۔ ان میں سے ایک ضلع آواران سے تعلق رکھنے والے منصور احمد ہیں۔ جنہوں نے ماسٹر1998کو بلوچستان یونیورسٹی کے شعبہ ابلاغ عامہ سے کیا۔ لیکن بعد میں ٹیچنگ کے شعبے کا انتخاب کیا۔ وہ کہتے ہیں کہ انکی خواہش تھی کہ اسی شعبے میں خدمات سرانجام دیں لیکن مواقع نہ ملنے کی وجہ سے صحافت کا خیال دل سے نکال دیا۔ اور ٹیچنگ کا شعبہ جوائن کر لیا۔ ہیبتان عمر بھی شعبہ ابلاغ کے ان طالبعلموں میں شامل ہیں جنہوں نے اس فیلڈ کا انتخاب کیا۔ وہ روزنامہ آساپ کوئٹہ میں بطور رپورٹر کام کر چکے ہیں۔ 2009کو جب روزنامہ آساپ بند کر دیا گیا وہ اس وقت سے بیروزگار ہیں۔ اور بلوچی اکیڈمی میں رضاکارانہ طور پر خدمات انجام دے رہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ اس فیلڈ میں کشش تو بہت ہے لیکن مواقع نہیں۔ سینیئرز نے آج تک مواقع پیدا کرنے کی کوشش نہیں کی۔ اداروں پر قبضہ گیریت کا رجحان ہے۔ نووارد پروفیشنل صحافیوں کو یہ کہہ کر مایوس کیا جاتا ہے کہ وہ کبھی اچھا صحافی نہیں بن نہیں سکتا۔تو ایسی حوصلہ شکن ماحول میں نوجوان صحافی اپنے لئے ترقی کا راستہ دیکھ نہیں پاتا۔ اور مواقع تلاش کرتے کرتے دوسرے شعبوں کے انتخاب کو ترجیح دیتا ہے۔ پروفیسر سیمی نغمانہ طاہر جو کہ بلوچستان یونیورسٹی کے شعبہ ابلاغ عامہ کے بانی اراکین میں سے ہیں۔یونیورسٹی کے شعبہ ابلاغ عامہ میں بطور ٹیچر 23 سال خدمات سرانجام دے چکی ہیں۔ اور آجکل کراچی یونیورسٹی میں خدمات سرانجام دے رہی ہیں۔ انکی PHDکا مقالہ بھی بلوچستان کے ابلاغ عامہ پر ہے۔ جسے بعد میں باقاعدہ طور پر کتابی شکل دے کر نصاب میں شامل کیا گیا ہے۔ انکی کتاب’’ بلوچستان میں ابلاغِ عامہ آغاز و ارتقاء‘‘ میں بلوچستان کی صحافت کے حوالے سے بہت کچھ موجود ہے۔وہ کہتی ہیں کہ شروعات میں جب اس شعبے کا آغاز ہوا تو ادارے کو بہت سے مسائل درپیش تھے۔ یہ کہ سلیبس کس طرح کا تیار کرنا ہے ، اساتذہ کہاں سے پیدا کرنے ہیں، اور داخلوں کی تعداد کتنی کہاں تک رکھنی ہے یہ بڑے مسائل تھے۔ جن پر بعد میں قابو پایا گیا۔ وہ کہتی ہیں کہ بلوچستان میں میڈیا انڈسٹری کی کپت بہت کم ہے اسلئے نوجوانوں کو مواقع بہت کم دستیاب ہیں۔ سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ بلوچستان میں اس شعبے پر بہت کم بزنس کی جاتی ہے۔ اگر بلوچستان کے بزنس مین اس شعبے پر اپنا سرمایہ نہیں لگاتے تو باہر سے بزنس کے لئے کو ن آئیگا۔ وہ کہتی ہیں کہ شعبہ ابلاغ عامہ کے طالبعلموں کی سرپرستی کرنا، انہیں بہتر تربیت اور پلیٹ فارم مہیا کرنا سینیئر کا کام ہے ۔ وہ صحافت کے طالبعلموں کو مشورہ دیتی ہیں کہ پڑھیں لکھیں۔الفاظ سے دوستی اور انکے استعمال کا حق ادا کریں۔ جب تک مطالعہ نہیں کریں گے تو تحریروں میں کوئی اثر باقی نہیں رہے گی ۔اور بلوچستان میں حقیقی میڈیا کا خواب بھی ادھورا ہے۔ پریس کلب کوئٹہ کے صدر شہزادہ ذوالفقار کہتے ہیں ’’ بلوچستان میں میڈیا انڈسٹری ہے ہی نہیں اور مقامی اخبارات میں میڈیا ورکرز کو اتنا معاوضہ نہیں ملتا جس سے انکی گزر بسر ہو جسکی وجہ سے بہت کم فارغ التحصیل طالبعلم صحافت کے شعبے کا چناؤ کرتے ہیں‘‘۔ اس وقت بلوچستان کی سطح پر پرائیوٹ الیکٹرانک میڈیا کی 10سے زائد بیورو آفسز کے علاہ پاکستان کا سرکاری ٹیلی ویژن PTV، ریڈیو پاکستان ، ایف ایم ریڈیو اسٹیشن، DPRمیں رجسٹرڈ تقریباً 170کے قریب اخبارات، 200کے قریب ماہنامہ، ہفت روزہ اور پندرہ روزہ میگزین کام کر رہے ہیں ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ اداروں سے فارغ التحصیل نوجوانوں کو مواقع بھر پور طریقے سے میسر آتے لیکن اب تک ایسا ممکن دکھائی نہیں دیتا۔ یہی سوال سماء ٹی وی کے بیوروچیف و کالم نگار جلال نورزئی کے سامنے رکھا studentتو انکا کہنا تھا ’’اخباری صنعت زوال پزیری کا شکار ہے جسکی سب سے بڑی وجہ سرکار اور اخباری مالکان کی ملی بھگت ہے۔ جسکا سب سے زیادہ نقصان مارکیٹ کے اخبارات کو ہوتا ہے۔ جبکہ فائدہ ڈمی اخبارات کو جاتا ہے۔ وہ سمجھتے ہیں اگر ڈمی اخبارات کے بجائے مارکیٹ کے اخبارات کو زیادہ سے زیادہ اشتہارات فراہم کئے جائیں اس سے نہ صرف اخبارات کا معیار بھی اچھا ہوگا اور صحافی کو بھی پر کشش معاوضہ بھی مل جائے گا۔ وہ کہتے ہیں کہ اخبارات کی طرح وہی حال الیکٹرانک میڈیا میں کام کرنے والے ورکرز نمائندوں کی ہے۔ یونیورسٹی سے فارغ التحصیل نوجوان پرکشش تنخواہ کی امید لیکر اداروں کا رخ کرتے ہیں لیکن کم اجرت کے سبب وہ اس کو جلد ہی چھوڑنے پر مجبور ہو جاتے ہیں جسکا نقصان غیر تربیت یافتہ افراد کی میڈیا میں آجانے سے پروفیشنل صحافت کو پہنچتا ہے‘‘۔ جان محمد بلوچ پی ٹی وی نیوز میں بطور سینیئر پروڈیوسر کرنٹ افیئر کام کر رہے ہیں وہ بھی جامعہ بلوچستان سے شعبہ ابلاغ میں اپنی ماسٹر کر چکے ہیں۔ شعبہ ابلاغ عامہ کا طالبعلم یونیورسٹی سے اداروں تک کیا کیا مشکلات جھیلتا ہے اور بلوچستان میں شعبہ صحافت کس قدر پرواں چڑھ چکا ہے تو وہ ان سوالات کے جواب میں کہتے ہیں ’’ ابلاغ حقائق کے عمل کو ایک دوسرے تک پہنچانے کا نام ہے لیکن بدقسمتی سے ابلاغ کے عمل کو غلط طریقے سے لیا گیا۔ آج ابلاغ کا عمل تو جاری ہے لیکن اس ابلاغ نے معاشرے کو کیا دیا وہ ہمارے سامنے ہے۔ یورپ میں جائیں تو وہاں ابلاغ کے شعبے نے بہت ترقی کی ہے اور اسکے بدولت وہاں کا معاشرہ کافی تبدیل ہو چکا نظر آتا ہے کیونکہ وہاں صحافتی شعبے کے لئے رکاوٹیں کھڑی نہیں کی گئی تھیں۔ جبکہ پاکستان میں صحافت کا شعبہ اسکے برعکس ہے اور اس ملک میں 80کی دہائی تک تو ابلاغ کا عمل ایک اچھے انداز میں جاری تھا لیکن پھر اسے دبا دیا گیا۔ آج میڈیا کا میدان تو بھر چکا ہے لیکن اس نے ابلاغ کا عمل درست طریقے سے انجام نہیں دیا اور یہی وجہ ہے کہ ملک کا امیج بھی یہی میڈیا باہر کے ممالکے میں صحیح طریقے سے پیش نہیں کر سکا‘‘۔ایک سوال کے جواب میں وہ کہتے ہیں ’’گو کہ میڈیا کافی خوشحال دکھائی دیتا ہے لیکن معاشرہ تنزلی کا شکار ہو چکا ہے۔ اس معاشرے کی تنزلی کو دیکھتے ہوئے نئے نوجوان میڈیا کا دامن تھامتے ہوئے نظر آتے ہیں لیکن انہیں ان اداروں کی جانب سے کسی خیر کی امید نہیں تو وہ باہر کے ممالک جاکر اپنی خدمات بہتر طور پر انجام دیتے ہیں اور ابلاغ عامہ کے طالبعلم کے لئے جو کہ سچائی کا علمبردار ہے اور اپنا صحافتی کیریئر بنانا چاہتا ہے اس میدان میں مشکلات ہی مشکلات ہیں اب یہ اس پر انحصار کرتی ہے وہ کہ وہ کونسا راستہ اختیار کرتا ہے ‘‘ بلوچستان ہر لحاظ سے چاہے وہ علم کا شعبہ ہو یا معیشت کا ہوصحت کا، سماج کا ہر طرف پسماندہ نظر آتا ہے میڈیا اپنا کردار بجا طور پر ادا کر سکتا ہے جب میڈیا حقیقی طور پر بلوچستان کو نظرانداز کرنے سے گریز کرے اسکے لئے شعبہ صحافت کے طالبعلموں کو اپنا کردار بخوبی ادا کرنے کی ضرورت ہے۔ بلوچستان میں صحافت کا شعبہ بالکل لڑکھڑاتا ہوا نظر آتا ہے بہت کم ایسے نوجوان ہیں جنہوں نے صحافت کے شعبے کا دامن تھام کر رکھا ہے۔ اسکے لئے ضروری ہے کہ بلوچستان میں میڈیا کے شعبے کو مضبوط کرنے کے لئے پروفیشنل صحافی آگے آئیں بلوچستان یونیورسٹی یا بلوچستان کے دیگر جامعات میں صحافتی ٹیچنگ کا معیار بلند کرنے اور انہیں سہولیات فراہم کرنے کے لئے سینیئر صحافیوں کو صحافت کے طالبعلموں کے ساتھ ملکر اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔ بصورت دیگر یہ ہوگی صحافت کی زبوں حالی کا رونا روتے ہمیں کافی عرصہ ہوگیا اب اسکے لئے مزید کئی برس گزارنے نہ پڑیں ۔ حکومت کی زمہ داری بنتی ہے کہ وہ اس شعبے کو بہتر بنانے کے لئے بی اے کی سطح پر اس مضمون کو لازمی نہیں تو کم از کم آپشنل کے طور پر پڑھانے کی سمری جاری کریں۔ اور ملازمت کے مواقع بھی پیدا کریں۔ حقیقی صحافت ہی بلوچستان کا حقیقی چہرہ دنیا کے سامنے پیش کرے گی۔