|

وقتِ اشاعت :   December 11 – 2015

جب کبھی ملک میں تاجروں کی یا تاجروں کے نمائندوں کی حکومت آتی ہے تو قومی اثاثوں کی نیلامی کاعمل شروع ہوجاتا ہے اس میں خصوصیت کے ساتھ وہ تمام ادارے صف اول میں رکھے جاتے ہیں جوبہت زیادہ منافع کماتے ہیں ۔ گزشتہ ادوار میں تمام بنک فروخت کر دئیے گئے ۔ پی ٹی سی ایل جس کی مالیت کا اندازہ 25ارب ڈالر لگایا گیا تھا ، اونے پونے داموں فروخت کردیا گیا ۔ خریدار ابھی تک اسی کروڑ ڈالر کی بقایا رقم دینے کو تیار ہی نہیں۔ اس کو ایک دہائی سے زیادہ کا عرصہ گزر گیا اسی طرح کے ای ایس سی کا سودا کیا گیا ،سودے میں طے تھا کہ کمپنی نئے بجلی گھر بنائے گی اور بجلی کی پیداوار میں اضافہ کرے گی لیکن یہاں بھی خریدار نے اپنے وعدوں پر عمل نہیں کیا ۔ موجودہ دور حکومت میں 91سے زائد سرکاری ادارے منتخب کیے گئے ہیں جن کو نیلام کیا جائے گا ان میں 150ارب روپے سالانہ منافع کمانے والے او ی ڈی سی ایل اور پی پی ایل شامل ہیں ۔ ان اداروں میں صوبوں کے مفادات کا خیال نہیں رکھا جارہا ہے بلوچستان اور سندھ کے زبردست معاشی مفادات پی ٹی سی ایل ‘ کراچی الیکٹرک میں تھے اور اس طرح پی پی ایل اور جی ڈی ایل اور پی آئی اے میں بھی ہیں۔وفاق صوبوں کے مفادات کو خاطرمیں نہیں لاتا اور اپنی مرضی سے ہر ادارے کو فروخت کرتا جارہا ہے ۔ قومی اسمبلی میں دو دن تک اپوزیشن کی زبردست احتجاج کے بعد وزیر موصوف نے قومی اسمبلی کے اجلاس کے باہر یہ اعلان کردیا اور فیصلہ سنا دیا کہ پی آئی اے اگلے سال نجی ملکیت میں چلا جائے گا ،اس کے 26فیصد حصص فروخت ہونگے اور اس کے ساتھ ہی نجی کمپنی کو پی آئی اے کا انتظام سپرد کر دیا جائے گا۔ ایک طرف آئی ایم ایف کا دباؤ ہے کہ اس کے قرضے ادا کرو کیونکہ پاکستان کی معیشت مستحکم نہیں ہے یہاں کسی بھی وقت کچھ بھی ہوسکتا ہے ۔ اس لئے آئی ایم ایف یہ خطرہ مول لینا نہیں چاہتی کہ بین الاقوامی اداروں کی رقوم ڈوب جائے اور پاکستان آخر کار اپنے قرضے ادا کرنے کے قابل ہی نہ رہے اور ان بین الاقوامی اداروں اور ممالک کو اپنے تمام قرضے معاف کرنے پڑیں ۔ چنانچہ ان خطرات کے پیش نظر آئی ایم ایف اور دوسرے بین الاقوامی ادارے پاکستان پر دباؤ بڑھا رہے ہیں کہ نجکاری کا عمل تیز تر کردیا جائے اور اس پر جوازیہ ہے کہ حکومت تجارتی ادارے نہ چلائے اوراس بہانے زیادہ سے زیادہ منافع کمانے والے اداروں کو جلدسے جلد نجکاری کے ذریعے فروخت کردیا جائے۔ دوسری جانب یہ بات بھی حکمرانوں کے حق میں جاتی ہے کہ ان کے ہاتھ میں کیش رقم خرچ کرنے کے لئے آئے گی یعنی یہ موجودہ معاشی اور مالی بحران میں ایک نعمت غیر مترقبہ ثابت ہوگی۔ ایک مرکزی وزیر جن کے پاس منصوبہ بندی کا محکمہ ہے انہوں نے کہا ہے کہ نوے فیصد رقم قرضوں کی ادائیگی اور دفاع پر خرچ ہوتی ہے عوام کی فلاح و بہبود کے لئے وسائل کم بچ پاتے ہیں اس لئے حکمرانوں کی ضروریات اور عیاشیاں زیادہ ہیں کیونکہ ان کی حکمرانی کے باقی دو سال رہتے ہیں وہ اس مدت میں چھکے پر چھکہ لگانا چاہتے ہیں اور اس کا واحد ذریعہ آمدنی صرف اور صرف منافع بخش اداروں کی فروخت ہے ۔یہاں صوبوں کے جائز مفادات کا تحفظ ضروری ہے وفاقی حکومت نے بلوچستان حکومت کو خاطر میں نہ لا کر پی پی ایل اور او جی ڈی سی ا یل کے حصص فروخت کر ڈالے اور اب پی آئی اے کے حصص فروخت کرنے کا عمل باقاعدہ اعلان کردیا گیا ہے ۔ پی آئی اے کی فروخت کے بعد بلوچستان میں عوام الناس کے لئے فضائی سروس مہیا نہیں رہے گی پسماندہ صوبے کے لوگ بسوں’ اونٹوں اور جانوروں پر سفر کریں گے کیونکہ حکمرانوں کو کیش رقم کی ضروت ہے پی آئی اے نے بلوچستان کے تقریباً تما فلائٹس بند کردئیے ہیں۔ چند سا ل بیشتر کراچی کے بعد سب سے زیادہ مصروف ترین ائر پورٹ تربت تھا ۔ لاہور ‘ اسلام آباد ‘ پشاور نہیں تھے تربت اور گوادر کے لئے ہفتہ بھر میں ایک آدھ فلائٹ رہ گئی ہے پی آئی اے کی نج کاری کے بعد وہ بھی بند ہوجائے گی ۔ اس لئے حکمرانوں نے گوادر بندر گاہ کی تین بھرتوں کی تعمیر کے بعد گوادر کی بین الاقوامی ائیر پورٹ پر آج تک کام شروع نہیں کیا۔ پی آئی اے موجود نہیں ہوگا تو گوادر ائیر پورٹ کی کیاضرورت ۔