|

وقتِ اشاعت :   December 16 – 2015

ڈھائی سال بعد مری معاہدے پر عملدرآمد کا فیصلہ کرلیا گیا ‘بلوچستان کے نئے وزیراعلیٰ مسلم لیگ ن کے پارلیمانی لیڈر نواب ثناء اللہ زہری ہونگے۔ مری معاہدے پر عملدرآمد کے بعد صوبے بھر میں مسلم لیگ ن کے رہنماؤں اور کارکنان جشن منارہے ہیں ،اب صوبے میں نئے وزیراعلیٰ بلوچستان حلف اٹھائینگے اور اپنا منصب سنبھالینگے مگر دوسرا مرحلہ جو بہت ہی اہمیت کا حامل ہے وہ کابینہ کی تشکیل ہے۔ ڈھائی سالہ دور حکومت کے دوران مسلم لیگ ن کے پاس کم وزارتیں رہیں جبکہ اس کے مقابلے میں قوم پرست جماعتوں کے پاس وزارت اور گورنر شپ رہا ہے اور گورنر اب بھی قوم پرست جماعت کا ہی ہوگا مگر کابینہ میں ردوبدل یقینی طور پر ہوگا جس میں مخلوط حکومت میں شامل جماعتیں ایک ہم آہنگی سے کابینہ تشکیل دینگے مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جو اہم وزارتیں ہیں اُس میں کس حد تک ردوبدل کی جائے گی یہ بات بھی یقینی ہے کہ مسلم لیگ ن اہم وزارتیں بھی اپنے پاس رکھنے کی خواہش رکھے گی اب اتحادی اس پر کس حد متفق ہونگے یہ کہنا قبل از وقت ہوگا۔ ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ کی کابینہ میں شرکت کے متعلق نیشنل پارٹی کی مرکزی قیادت نے اپنا موقف پیش کردیا ہے کہ وہ کابینہ میں شامل نہیں ہونگے، اسپیکر کی نشست بھی خالی ہے اس کا تاج کس کے سرسجے گا اس حوالے سے قیاس آرائیاں بھی سامنے آرہی ہیں کہ شاید اسپیکر کی نشست ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ کو ملے۔ نئے وزیراعلیٰ اپنی کابینہ کے ساتھ بلوچستان میں کیسی تبدیلی لائینگے، نواب ثناء اللہ زہری نے اپنے مختلف انٹرویوز میں صوبے میں امن وامان کی صورتحال کی بہتری کا سہراکسی ایک جماعت کی بجائے اتحادی جماعتوں سمیت سیکیورٹی فورسز کے سرباندھا ہے،نواب ثناء اللہ زہری کا کہنا ہے کہ وزیراعلیٰ بننے کے بعدامن وامان کے حوالے سے مرکز کی سابقہ پالیسی کو آگے بڑھائینگے اور اس میں مزید تیزی بھی لائی جائے گی‘ جس میں جلاوطن بلوچوں سے بات چیت بھی ایک اہم مرحلہ ہے۔ نئے وزیراعلیٰ بلوچستان نواب ثناء اللہ خان زہری نے اس سے قبل خان آف قلات آغا سلیمان داؤد سے لندن میں ملاقات بھی کی تھی اوروہ اب بھی بہت ہی پُرامید دکھائی دے رہے ہیں کہ وہ بات چیت کے ذریعے بہت سے اہداف حاصل کرینگے۔وزیراعلیٰ بلوچستان ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ اور وفاقی وزیر جنرل عبدالقادر بلوچ نے سوئٹرز لینڈ میں نواب اکبر خان بگٹی کے پوتے نوابزادہ براہمداغ بگٹی سے ملاقات کی جس کے بعد بلوچستان کی سیاست میں ایک ہلچل سے مچ گئی کیونکہ اس ملاقات کے متعلق صرف وفاق، عسکری قیادت اور وفد کو علم تھا ملاقات خفیہ طور پر کی گئی تھی مگر بعد میں بلوچ ری پبلکن پارٹی کے سربراہ نوابزادہ براہمداغ بگٹی نے ملاقات کی تصدیق کرتے ہوئے کہاکہ فی الحال پاکستان نہیں آرہا اور میں نے اپنے موقف سے وزیراعلیٰ بلوچستان اور جنرل عبدالقادر بلوچ کو آگاہ کردیا ہے۔ سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ فی الوقت ایسا کچھ دکھائی نہیں دے رہا کہ مذاکراتی عمل آگے بڑھے اور جلاوطن بلوچ واپس آئیں جس کیلئے بہت زیادہ سیاسی مشق کی ضرورت ہے اب یہ نئے وزیراعلیٰ نواب ثناء اللہ خان زہری پر منحصر ہے کہ وہ کس طرح ایک نئی حکمت عملی کے ساتھ آگے بڑھیں گے۔ بلوچستان میں اس وقت سب سے بڑا مسئلہ پاک اکنامک کوریڈور روٹ کا بھی ہے جس پر سیاسی جماعتیں مطمئن دکھائی نہیں دیتیں اور گوادر میں آباد کاری کے حوالے سے بھی سیاسی جماعتوں کی جانب سے شدید تحفظات سامنے آرہے ہیں ان تمام چیلنجز سے نمٹنے اور سیاسی جماعتوں سمیت بلوچستان کے عوام کو مطمئن کرنے کے مرحلے کا بھی سامنا ہے۔ سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ بلوچستان کئی دہائیوں سے محروم رہا ہے اور ترقی کی دوڑ میں سب سے پیچھے رہا ہے‘ جس کی بنیادی وجہ وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم کو ٹھہرایا جاتا ہے کہ بلوچستان وسائل سے مالامال سرزمین ہونے کے باوجود یہاں کے عوام اس سے محروم رہے ہیں جس کی وجہ سے بلوچستان میں شورش جیسا ماحول پیدا ہوا ہے ۔ اگر نئے وزیراعلیٰ بلوچستان ان تمام مسائل کو مد نظر رکھ کر ایک بہترین حکمت عملی مرتب کرینگے اور اپنی ٹیم کے ساتھ ان چیلنجز سے نمٹنے کیلئے بھرپور کوشش کرینگے تو یقیناًاس کے مثبت اثرات بلوچستان پر پڑینگے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ نئے وزیراعلیٰ بلوچستان نواب ثناء اللہ خان زہری ان تمام اہداف کو حاصل کرنے کیلئے کس حد تک متحرک رہینگے اور ایک مثالی حکومت قائم کرینگے۔