15دسمبر 2015ء آواران کے لئے سیاہ باب رقم کر گیا ایک عظیم انسان تحصیل جھاؤ کو لاوارث چھوڑ گیا۔ ایک ایسا انسان جسے ابھی بہت کچھ کرنا باقی تھا ابھی اسے مزید اپنی زمہ داری نبھانا تھا لیکن انسان دشمن قوتوں نے اس سے مزید زندہ رہنے کا حق چھین لیا۔ اسی شام جب وہ خدمت کا فرض ادا کرکے گھر کی طرف روانہ ہو چکا تھا درندوں نے اپنی درندگی کا مظاہرہ کرنے کے لئے منصوبے کو آخری شکل دے دی تھی۔ اور اسکا راہ تھک رہے تھے۔ اچانک گولیوں کی آواز آتی ہے۔ فضا گولیوں کی آواز سے گونج اٹھتی ہے زمین تڑپتا ہوا محسوس کرتا ہے۔ گولیاں اسکی جسم میں پیوست ہو کر اسکی روح کو جسم سے الگ کر دیتے ہیں۔ پورا جھاؤ خاموش ہو جاتا ہے۔ زمین خون سے نہلا جاتا ہے۔ آسمان سسکیاں لے رہا ہوتا ہے۔ درندے اپنا کام کر چکے ہوتے ہیں۔ وہ پورے جھاؤ کو للکارتا ہوا اپنی پناہ گاہوں کا رخ کرتے ہیں۔ اور اپنی منزل پر پہنچ کر فتح کا جشن منانے کے لئے انسانیت کش نعرہ لگاتے ہیں۔ لیکن اگلے ہی دن انکا یہ جشن انکے صفوں میں ماتم بچھادیتی ہے۔ جب سرزمینِ جھاؤ اس بات کی گواہی دے رہا ہوتا ہے کہ آج تک شاید کسی بھی جنازے میں شریک انسانوں کا ایسالشکر اس نے دیکھا ہو۔ وہی عید گاہ جو کہ عیدین کے موقع پر خالی جگہوں کی شکایت کا صدا ضرور لگایا کرتا تھا آج اس عید گاہ میں پیر رکھنے کا جگہ بھی باقی نہیں رہا تھا۔ شہید کا خون اس بات کی گواہی دے رہا تھا کہ انسانیت جیت گئی اور درندگی کو ہار کا منہ دیکھنا پڑا۔جنازے میں شریک مجھ سمیت ہر شخص کے آنکھوں سے بہتا ہو ا آنسو اس بات کی گواہی دینے کے لئے کافی تھے کہ انسانیت کبھی بھی مات نہیں کھاتا شکست تو انکے مقدر میں ہوتی ہے جو انسانیت دشمنی کا کام کرتے ہیں جو کہ نفرتوں کے سوداگر ہوتے ہیں اور نفرتوں کا کاروبار کرتے ہیں۔ جنازے میں شریک ہر آنکھ سے آنسوؤں کو گرتے دیکھا اور درندوں کے لئے بدعا انکے منہ سے نکلتے ہوئے سنا۔یقیناًانسانیت دشمن عناصر ہار چکے تھے گو کہ وہ اس شکست کو اپنے لبوں سے تسلیم کرنے سے گریزاں تھے لیکن وہ دل ہی دل میں اپنی شکست کو تسلیم کر چکے ہوں گے۔ آپ سوچ رہے ہوں گے آخر وہ انسان تھا کون جس نے اس زمانہ درندگی میں انسانیت کا سودا کر لیا اور انسانیت کی خدمت کرتے کرتے اپنی جان کا نذرانہ پیش کیا۔ وہ تھے ڈاکٹر شفیع جان بلوچ۔جسے میں نے بہت قریب سے دیکھا اور بہت ہی قریب پایا۔ ایک ایسا انسان جس نے انسانیت کی خدمت کا شعبہ اپنے زندگی کا نصب العین بنا لیا پھر اسی پر کاربند رہے۔ اور جنون کی حدتک اسکا حق ادا کیا۔ وہ اب ہمارے درمیان نہیں رہے لیکن جو قرض میرے اوپر اسکی خدمات کو بیان کرنے میں رہ گئی ہے اسے اپنے الفاظ میں ضرور بیان کروں۔ میں اسے ضرور بیان کرونگا۔ ڈاکٹر شفیع بلوچ ایک خاص فکر، سوچ اور کردار کے مالک تھے۔ انہوں بولان میڈیکل کالج سے ایم بی بی ایس کا امتحان پاس کرکے شعبہ صحت میں ایک ایسے علاقے کا انتخاب کیا جس علاقے میں ڈاکٹر اپنی فرائض کی انجام دہی سے گریزاں تھے داکٹر صاحب خود شوگر کے مرض میں مبتلا تھے لیکن انہوں نے اس مرض کو اپنے فرض کی ادائیگی میں حائلِ رکاوٹ ہونے نہیں دیا۔ برسوں سے اس خالی خلا کو پر کرنے میں کامیاب ہو گئے جو جھاؤ کے لاچار اور بیمار انسانوں کے لئے ایک مصیبت سمجھی جاتی تھی۔ میں نے بہت سے ڈاکٹر ز دیکھے تھے لیکن شاید ہی ڈاکٹر شفیع جیسا انسان کوئی ماں جنے۔ انہوں نے کبھی بھی مال و متاع کی تمنا نہیں کی۔ وہ جھاؤ کے عوام کی دن رات نہ صرف اپنے شعبے کی حد تک خدمت کرتے رہے بلکہ اسکے ساتھ ساتھ وہ سماج کے لئے ایک رہنما اصول بھی رکھتے تھے۔ وہ انسانیت کا کام بلا غرض و لالچ انجام دیا کرتے تھے۔ میں کبھی کبھار ان سے کہتا تھا کہ کوئی کلینک کھول دے بس مفت میں لوگوں کا علاج کرتے رہو گے۔ تو اسکا جواب ہوتا تھا کہ مجھے انسانیت کی خدمت کرتے ہوئے تسکین ملتی ہے۔ میں نے ایسے مریض بھی دیکھے جنکے پاس دوائیوں کے لئے پیسے نہیں ہوتے تھے تو وہ اپنی جیب سے پیسہ خرچ کرکے انکے دوائیوں کا بندوبست کیا کرتے تھے۔ بھلا مجھے اس انسان میں کبھی فرشتوں کا روپ بھی نظر آیا۔اس نے کبھی بھی مال و دولت کو اپنی کمزوری نہیں بنائی یہی وجہ تھی کہ انہیں بڑے بڑے آفر آئے لیکن انہوں نے تمام آفرز کو جھاؤ کے عوام کی خدمت کے عوض ٹھکرا دیا ۔ یہی وجہ تھی کہ ڈاکٹر صاحب جاتے ہوئے بھی کوئی بنک بیلنس نہیں بنا سکے اور نہ ہی اپنا کچا مکان پکا کر سکے۔ میں نے ڈاکٹرز برادری کو بڑے بڑے عہدوں کی خواہش کرتے ہوئے دیکھا۔ اونچے اونچے مکان بناتے ہوئے دیکھے۔ VIPگاڑیاں خریدتے ہوئے دیکھے دیہی زندگی کو مسترد کرکے شہروں میں بستے ہوئے دیکھا۔ ان سب کو بہت کچھ خریدتے دیکھا۔ لیکن ڈاکٹر شفیع کو میں نے سب سے الگ دیکھا میں نے اسے ہر وقت انسان اور انسانیت خریدتے ہوئے دیکھا۔ شاید یہی وجہ تھی کہ لوگوں کو اس سے لگاؤ تھا اور اسے انسانیت سے۔ یہی چیز انسانیت دشمن عناصر کو کہاں گوارہ ہوتی انہوں نے ڈاکٹر صاحب کو شہید کر دیا۔پورے جھاؤ کو یتیم خانے میں تبدیل کردیا۔ اس یتیم خانے میں بڑے، بوڑھے، بچے، مرد سب شامل تھے۔ مجھے آواران کا زلزلہ 2013ء اب بھی یاد ہے جب وہ اپنی ٹیم کے ہمراہ آواران کے متاثرہ علاقوں میں انسانیت کی خدمت میں کوشاں رہے۔ چوبیس گھنٹوں میں سے بڑی مشکل سے 4گھنٹے آرام کیا کرتے تھے باقی 20گھنٹے انسان بچاؤ مہم جوئی کا حصہ بنے رہے۔ وہ لوگوں کی دکھ اور تکلیف کو اپنا سمجھ کر اسے دور کرنے کی کوشش کرتا تھا۔وہ انسانیت کے لئے بنے تھے شاید یہی وجہ تھی کہ اسکے پاس انسانوں کا میلہ لگا رہتا تھا۔ وہ اپنی اس زندگی سے خوش اور مطمئن تھے۔ گھر سے نکلتے ہوئے ہسپتال پہنچنے پہنچتے اسے دو گھنٹے لگتے تھے۔ یہ دو گھنٹے بھی انسانی خدمت کی انجام دہی میں گزرتے تھے۔ راستے میں کوئی روک لیتا تو نہ نہیں کرتے تھے اسکے گھر جاتے پورے محلے کے مریض جمع ہوتے سب کا علاج کرتے لیکن تھکاوٹ کو کبھی بھی انہوں نے اپنے اعصاب کی کمزوری نہیں ہونے دیا۔میں کبھی تنگ آکر کہتا تھا کہ ڈاکٹر آپکے ساتھ سفر کرنا بڑا مشکل اور صبر آزما کام ہے۔ وہ اس بات پر ہنستا اور مسکراتا۔ یہ مسکراہٹ میں نے اسکا آخری دیدار کرکے اسکے چہرے سے عیاں دیکھی۔ایسے لگ رہا تھا جیسے ایک پھول سا چہرہ مسکرا کر کہہ رہا ہو کہ میں امر ہو گیا۔ واقعی ڈاکٹر امر ہوگیا۔ لیکن جاتے جاتے اپنے جانے کا دکھ اور اپنی یادیں مجھ سمیت سب کے دل اور دماغ کے اندر پیوست کرکے چلا گیا۔ وہ ایک پھل اور سایہ داردرخت کے مانند بن چکا تھا اور لوگ پھل اور سائے سے لطف اندوز ہو رہے تھے۔ کہ اس درخت کو یک لخت کاٹ دیا گیا۔ ڈاکٹر صاحب کے خون نے زمین پر پڑتے ہی یہ اعلان ضرور کیا ہوگا۔ کہ انسانیت کبھی بھی ختم نہیں ہوتی جب تک یہ انسان باقی ہیں۔ اور بھی ڈاکٹر شفیع پیدا ہوتے رہیں گے۔ آگے آئیں گے۔ اور انسانیت کا مشن جاری رہے گا۔ ڈاکٹر صاحب جسمانی طور پر ہم سے جدا ہوگئے لیکن روحانی طور پر اب بھی ہمارے درمیان موجود ہیں۔ ہم جب بھی انسانیت کا پرچار کریں گے۔ درندگی کو شکست ہوتی رہے گی۔ ڈاکٹر صاحب کے روح کو سکون ملتا رہے گا۔
یہ نہ سمجھنا کہ ہم نے تمھیں بھلا دیا
تم تو زندہ ہو ہمارے دل میں دماغ میں
کٹ بھی جائے سر تو کچھ نہیں
تیرا مشن جاری رہے گا۔
مسیحا کا قتل
وقتِ اشاعت : December 22 – 2015