|

وقتِ اشاعت :   December 23 – 2015

سمندری حدود کا تین چوتھائی سے زیادہ حصہ بلوچستان کے ساحل پر منحصر ہے۔ اس سے بھی زیادہ ایرانی بلوچستان ہے جو مکمل طور پر ساحل مکران کے نام سے پہچانا جاتا ہے۔ گزشتہ 60سالوں سے پاکستان کے حکمرانوں نے اس کی اہمیت سے انکار کیا ہوا تھا۔ جب روسی افواج افغانستان میں اپنی حمایتی حکومت کی امداد کرنے پہنچی تو اچانک یہ مغربی پروپیگنڈا سامنے آیا کہ روس ساحل مکران کے ’’گرم پانیوں‘‘ پر قبضہ چاہتا ہے۔ حکمرانوں نے امریکہ کے شہہ پر روس کے خلاف افغان خانہ جنگی میں بھرپور حصہ لیا۔ افغانوں کو دھونس دھمکی اور لالچ کے ذریعے پاکستان بحیثیت مہاجر بلایا گیا تاکہ روس کے حامی افغان قوم پرست حکومت کے خلاف بھرپور پروپیگنڈا کیا جائے۔ یہ سب کچھ کامیاب ہوگیا لیکن پھر بھی پاکستانی حکمرانوں کو یہ احساس نہیں ہوا کہ ساحل مکران یا خلیج بلوچ کتنا اہم ہے۔ ظلم خدا کا یہ سمندر یا ساحل بلوچ پر حکمرانی وہ لوگ کررہے ہیں جنہوں نے سمندر ہی نہیں دیکھا ، بلوچ اور سندھی عوام اور ان کے نمائندوں کو ساحل کی ترقی سے متعلق پالیسی بنانے سے دور رکھا گیا ساری پالیسی اس طرح بنائی گئی کہ افسران کروڑ پتی اور ارب پتی بن گئے۔ ان میں ایک ڈیپ سی DEEF SEA FISHINGیعنی گہرے سمندر میں ماہی گیری کے نام پر غیر ملکی اور بل ٹرالرز (Bull Trawlers)کو کھلے سمندر میں ماہی گیری کی اجازت دی گئی۔ نتیجہ یہ ہوا کہ انہوں نے ساحل کے قریب آکر ماہی گیری کی اور بلوچستان اور سندھ کے سمندری حیات میں تباہی پھیلائی۔ ایک دہائی کی جدوجہد کے بعد گہرے سمندر میں ماہی گیری پر پابندی لگادی گئی اور کرپٹ میرین فشریز کو لائسنس جاری کرنے سے روک دیا گیا اس پر کرپٹ عناصر اور مفاد پرستوں نے بہت شور مچایا کہ ہم کو سندھ اور بلوچستان میں سمندری حیات کو تباہ کرنے اور لوٹنے سے روک دیا گیا۔ اس کے برعکس ہزاروں کی تعداد میں سندھ کے بڑے ٹرالر بڑے پیمانے پر ماہی گیری کرنے لگے اور ممنوعہ جال استعمال کرنے لگے۔ اس کے بدلے ماہانہ 30ہزار سے 50ہزار فی ٹرالر اور فی کشتی بلوچستان کے وزراء اور افسران کو دیئے گئے۔ یہ رشوت سالانہ کروڑوں میں نہیں اربوں میں بنتی ہے۔ افسوس کا مقام ہے کہ بلوچستان کے سیاسی رہنما، منتخب نمائندے جرم میں شریک رہے۔ کسی کا ابھی تک محاسبہ نہیں ہوا۔ تقریباً تمام حکومتوں نے اس کرپشن کی پشت پناہی کی اور اس کو روکنے کے انتظامات نہیں کئے۔ جب کبھی بھی بڑے بڑے شہروں اور مراکز میں شدید مظاہرے ہوئے تو سیاسی رہنماؤں نے بیانات داغے اور احتجاج کرنے والوں کو رام کرنے کی کوشش کی۔ اس لوٹ مار میں بلوچستان کی سیاسی قیادت افسر شاہی اور بحری محافظین کے ساتھ شریک تھی۔ کوسٹ گارڈ اورمیرین سیکورٹی فورس کا نام بھی اس میں آتا ہے۔ ان کے بعض افسران رشوت ستانی میں برابر کے شریک رہے ہیں۔ ان کا بہانہ علاقے کی ترقی ہے۔ اس ترقی کے لیے کوسٹل ڈویلپمنٹ اتھارٹی بنائی گئی جس نے جیٹی کی تعمیر اور سڑکیں بنانے کے نام پر خوب دولت کمائی۔ اس میں بھی سیاسی قیادت نے کرپشن کی سرپرستی کی۔ ڈام کا مچھلی بندر اور اس کی تعمیر کا منصوبہ اور اس پر اخراجات کرپشن کی کھلی مثال ہے۔ حب سے لے کر جیونی تک پورے علاقے کو پسماندہ رکھا گیا۔ وہاں کے لوگوں کو کسی قسم کی سہولیات فراہم نہیں کی گئیں۔ سوائے اورماڑہ نیول سہولیات کے جو ساحل کی دفاع کے لیے پہلا قدم گردانا گیا ورنہ پاکستان کے حکمران اس دفاعی ضرورت سے بھی دہائیوں بے نیاز رہے۔ اس لئے آج گوادر میں پینے کے پانی کے چوری کا واقعہ پیش آیا۔ گوادر میں سب سے قیمتی چیز پانی ہے۔ چنانچہ چور نے گھر میں گھس کر صرف پانی چوری کی۔ ساحل مکران کے قرب و جوار میں پانچ بڑے بڑے دریا بہتے ہیں۔ ایک بار دریائے دشت میں 7لاکھ کیوسک کا سیلاب گزرا جو راوی اور چناب کے سیلاب سے کہیں زیادہ ہے۔ اگر ان سب پر ڈیم بنائے جاتے اور پانی کو ذخیرہ کیا جاتا تو پورا خطہ ترقی کرتا۔ لوگوں کو روزگار ملتا۔ مگر نیس پاک NESPAKکا بنایا ہوا آکڑہ کور ڈیم صرف 10سال کے عرصہ میں ریت سے بھرگیا اور اس میں پانی جمع کرنے کی صلاحیت تقریباً ختم ہوگئی۔ ڈیم کرپشن کی نذر ہوگیا۔