گوادر میں پانی کی قلت ہمیشہ رہی، اس کو حل کرنے کی کوشش نہیں کی گئی۔ پہلی بار نیشنل عوامی پارٹی کی حکومت نے 1972ء میں گوادر کو سنٹ سر سے پانی سپلائی کیا۔ محکمہ کی نااہلی کی وجہ سے وہ منصوبہ ناکام ہوا۔ محکمہ کے اہلکاروں نے یہ تک نہیں دیکھا کہ کنوئیں میں پانی موجود ہے کہ نہیں۔ انہوں نے پمپ چلانے شروع کیے۔ پانی کے بجائے ریت آنے کے بعد مشینری تباہ ہوگئی۔ اس کے بعد ایشیائی ترقیاتی بینک نے فنڈ زفراہم کئے اور آکڑہ کور ڈیم کا منصوبہ بنایا۔ یہ واحد منصوبہ تھا جس کے لئے یہ شرط رکھی گئی تھی کہ پانی صرف پینے اور گھریلو استعمال کے لیے ہوگا۔ اس کو تجارتی مقاصد کے لئے استعمال نہیں کیا جائے گا تاکہ گوادر اور اس کے گرد و نواح میں عوام الناس کو پینے کا صاف پانی ملے۔ یہ ڈیم گوادر کے باہر آکڑہ کے مقام پر بنایا گیا تھا۔ اس کی تعمیر اور منصوبہ بندی نیس پاک (NESPAK)نے کی تھی ان کا دعویٰ تھا کہ یہ ڈیم 50سال تک کام کرتا رہے گا۔ چونکہ نیس پاک کے ادارے میں کرپشن بہت زیادہ ہے اس لئے یہاں بے ایمانی اور فراڈ سے کام لیا گیا، سارا کام معیار کے مطابق نہیں تھا یا بالکل غیر معیاری تھا۔ اس کے پائپ، اس کا ڈھانچہ اور اس کا پانی جمع کرنے کا حوض یا پانی جمع کرنے کی صلاحیت استعداد سے کہیں کم تھی۔ چنانچہ بارشوں اور سیلاب میں یہ ڈیم ریت سے 10سال کے کم عرصہ میں بھرگیا اس کی پانی جمع کرنے کی ااستطاعت ہر سال کم ہوتی گئی اور آخر کار ڈیم ریت سے بھر کر ناکارہ ہوگیا۔ وفاق اور وفاقی اہلکار بلوچستان کے افسران پر الزامات لگاتے ہیں کہ وہ کرپٹ ہیں مگر نیس پاک میں کرپشن کی مثال شاید ہی بلوچستان میں ملے۔ آکرہ ڈیم ہی نہیں، کئی ایسے ڈیم نیس پاک کے کاریگروں اور انجینئروں نے تعمیر کیے جو پہلی ہی سیلابی ریلے میں تباہ ہوگئے۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ پورا پاکستان، اس کے ہر سطح کے افسران یہ جھوٹ بولتے نظر آتے ہیں کہ گوادر سے پاکستان ہی کی نہیں پورے خطے کی تقدیر بدل جائے گی۔ صرف زبانی کلامی بیانات سے لوگوں کو تسلی دی جارہی ہے کہ ان کے معاشی مشکلات کا حل صرف اور صرف گوادر میں مضمر ہے۔ بہت جلد گوادر، اس کی گہری سمندری بندرگاہ ان کی قسمت بدل دے گی۔ وزیر منصوبہ بندی یہ کہہ چکے ہیں کہ چین کی جانب سے 46ارب ڈالر میں صرف 6ارب ڈالر بنیادی ڈھانچے کی تعمیر کے لئے ہیں باقی 40ارب ڈالر پنجاب میں صنعتی منصوبوں کے لیے مختص ہیں۔ گوادر کی ترقی کے لئے نہ وفاق نے رقم رکھی ہے نہ صوبائی حکومت نے چونکہ گوادر کا ایم پی اے سرکاری پارٹی سے تعلق نہیں رکھتا اس لئے گوادر کے لئے ترقیاتی فنڈ نہ ہونے کے برابر ہے۔ باقی ساری ترقیاتی اسکیمیں وزراء اور اتحادی پارٹیوں کے ایم پی اے حضرات کے لئے ہیں۔ گوادر میں پینے کا پانی نہیں ہے توجہ صرف اور صرف سیکورٹی پر ہے یہ انتہائی افسوس کی بات ہے کہ گزشتہ 20سالوں سے گوادر کے مسائل حل کرنے پر کوئی توجہ نہیں دی گئی چونکہ پرویز مشرف جو اس وقت فوج کے سربراہ تھے کے حکم پر گوادر بن گیا۔ اگر وہ فوج کے سربراہ نہ ہوتے تو اس کے حکم کو تسلیم نہیں کیا جاتا۔ اس کی مثالیں پہلے بھی ہیں کہ صدر پاکستان کے احکامات کو تسلیم نہیں کیا گیا صدر فاروق لغاری نے ریڈیو پاکستان کو حکم دیا کہ ملتان ریڈیو اسٹیشن سے بلوچی پروگرام شروع کیا جائے اور بلوچی میں خبریں نشر کی جائیں تاکہ ڈیرہ غازی خان اور ملحقہ علاقوں میں بلوچی بولنے والے لاکھوں لوگوں سے بھی رابطہ رہے۔ صدر فاروق کا انتقال ہوگیا حکام نے ان کے حکم کی تعلیم نہیں کی اس لئے جنرل پرویز مشرف کا حکم گوادر بندرگاہ کی تعمیر، ساحلی شاہراہ کی تعمیر اور میرانی ڈیم بنانے تک محدود تھا، وہ سب ہوگیا۔ اس سے آگے کوئی حکم نہیں تھا۔ اس لئے ان کو وہیں تعمیر کرکے چھوڑدیا گیا ہے۔ گوادر کے لئے کوئی منصوبہ نہیں ہے گوادر ائیرپورٹ کی تعمیر بھی 2002ء میں شروع ہونی تھی جو 2015کے ختم ہونے تک شروع نہ ہوئی اور نہ شروع ہوگی۔ گوادر پورٹ اور اس کے ملحقہ منصوبوں کے لئے وفاق پاکستان کو کوئی دلچسپی نہیں ہے یہ صرف پروپیگنڈے کا حصہ ہے۔ پاکستان کے لوگوں کو جھوٹی تسلی دینی ہے کہ گوادر کے ساتھ ان کی معاشی قسمت بدل جائے گی۔ بلوچستان حکومت نے زمین چینی کمپنی کے حوالے کردی۔ چینی کتنے سال لیں گے کہ اس کو ترقی دی جائے اور وہاں کارخانے اور صنعتیں لگائی جائیں۔ حکمران سنجیدگی کا مظاہرہ کریں پہلے لوگوں کو پینے کا پانی فراہم کریں۔ حال ہی میں گوادر میں پانی کی چوری کا واقعہ ہوا، چور گھر سے پانی کا ڈرم چوری کرکے لے گئے، گوادر میں سونے سے زیادہ قیمتی پینے کا پانی ہے۔
گوادر میں پانی کی قلت
وقتِ اشاعت : December 23 – 2015