ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ ہم نے پاکستان کو ایک وفاقی ریاست کے طور پر تسلیم نہیں کیا۔ ہندوستان سے آنے والے آئی سی ایس افسران سے یہ بات شروع ہوئی جو آج تک افسر شاہی اور دانشوروں کے ذہن میں موجود ہے کہ چھوٹے صوبوں کے شہری خصوصاً بلوچ اور سندھی دوسرے درجے کے شہری ہیں ان کے کوئی جمہوری اور شہری حقوق نہیں۔ پورا پاکستان وفاقی نہیں ایک قومی ریاست ہے جو نوکر شاہی پر مشتمل ہے۔ لہٰذا صوبوں کو نو آبادی کے طور پر دیکھا جاتا ہے اور ان سے اسی قسم کا برتاؤ کیا جاتا ہے۔ یہ سب کو معلوم ہے کہ پاکستان کس طرح بنا۔ سڑکوں پر نعرے لگانے سے نہیں بنابلکہ بلوچوں نے انگریز سامراج کے خلاف پوری ایک صدی مسلح جدوجہد کی اس جدوجہد میں لاکھوں افراد شہید ہوئے۔ بلوچوں نے انگریزوں کے خلاف دو سو جنگیں لڑیں اور 15 سے زائد فوجی آپریشنز کا سامنا کیا۔ سندھ میں لوگوں نے انگریز کے خلاف مسلح جنگیں لڑیں اور ہزاروں افراد شہید ہوئے۔ اسی طرح کے پی کے کے لوگوں نے تو زیادہ شدید اور خون ریز جنگیں لڑیں پھر پختونوں کی سرزمین پر انگریز افواج نے قبضہ کیا تو پاکستان نعرہ بازی سے وجود میں نہیںآ یا۔ کچھ علاقوں میں ہندوؤں کے تعصبانہ عمل کی وجہ سے پھر پاکستان ایک آئینی اور دستوری عمل کے ذریعے وجود میں آیا۔ یہ سندھ اسمبلی تھی جس میں پہلے پاکستان کی قرار داد پاس ہوئی کہ مسلمانوں کا ملک پاکستان بنایا جائے جو مسلمان اکثریتی علاقوں پر مشتمل ہو ۔یعنی صوبوں نے مل کر پاکستان کو ایک وفاق بنایا ہے وہ اس طرح سے بنا ہے کہ صوبوں یا وفاقی اکائیوں نے اپنے بعض اختیارات وفاق کے حوالے کئے تاکہ ایک وفاقی حکومت کا قیام عمل میں لایا جائے۔ اس کو محدود اختیارات دیئے گئے۔ یہ اختیارات صوبوں نے وفاقی حکومت کو تقویض کیے تھے۔ چنانچہ پاکستان اپنے ساتھ زمین کا کوئی ٹکڑا نہیں لایا تھا۔ یہ وفاق صوبوں کے الحاق سے قائم ہوا لہٰذا صوبے وفاق کے ماتحت نہیں۔ وفاق کے ملازمین صوبوں پر حکم نہ چلائیں۔ صوبوں کو اولیت حاصل ہے۔ کوئی آفت آتی ہے تو صوبوں پر آتی ہے۔ لوگ پریشان ہوتے ہیں تو صوبوں کے عوام پریشان ہوتے ہیں۔ اگر معاشی مشکلات ہیں تو صوبوں کے عوام کے لئے ہیں۔ دہشت گردی اور سکیورٹی کے معاملات سب کا سامنا صوبے کے عوام کو کرنا پڑتا ہے۔ وفاق کے پاس اب صرف اسلام آباد رہ گیا ہے یا فاٹا پر اس کا روایتی اور تاریخی کنٹرول جاری ہے کیونکہ یہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان سرحدی علاقے ہیں جو پاکستان کے کنٹرول میں ہیں لیکن وفاق کے پاس صرف افسران ہیں۔ نوکروں یا تنخواہ دار ملازمین میں عوام نہیں ہیں، یہ سب لوگ آجکل صوبوں پر احکامات صادر فرماتے رہتے ہیں۔ صوبوں کی حکومتیں انتہائی کمزور اور ناتواں بنادیئے گئے ہیں۔ دولت اور اختیارات پر وفاق کا قبضہ ہے۔ اسحاق ڈار صاحب کا بیان ہے کہ وہ پنجاب کو زیادہ سے زیادہ وسائل دیں گے، سندھ اور بلوچستان کو کم سے کم یا نہ دینگے۔ آئے دن وفاقی سکیورٹی ادارے کسی نہ کسی بہانے چھوٹے صوبوں پر چڑھ دوڑتے ہیں اور ان کے اختیارا ت کا تعین بھی سرکاری ملازمین کرتے ہیں۔ دوسرے الفاظ میں حکومت کے تنخواہ دار ملازمین کو صوبوں کے عوام پر مسلط کردیا جاتا ہے۔ صوبوں کے وزرائے اعلیٰ پر دباؤ ڈالا جاتا ہے کہ ان سرکاری ملازمین کی دست بستہ اطاعت بھی کریں۔ ایپکس کمیٹی اس کی زندہ مثالیں ہیں جہاں وزرائے اعلیٰ کو مجبور کیا جاتا ہے کہ ان کی رائے کو اولیت دی جائے۔ سندھ اسمبلی نے حال ہی میں رینجرز کے اختیارات سے متعلق ایک قرار داد پاس کی۔ اس کو وفاق کے افسر شاہی کے حوالے کیا گیا۔ ادھر سے حکم آیا کہ وہ قرار داد قابل قبول نہیں ہے۔ پاکستان بھر کے ٹی وی چینلز اور میڈیا کے ادارے خوش ہیں کہ سندھ اسمبلی کی قرار داد کو منظور نہیں کیا گیا۔ آئینی طور پر سندھ اسمبلی آزاد اور خودمختار ہے پاکستان کے اندر رہتے ہوئے اس کا حق ہے کہ کوئی بھی قرار داد پاس کرے، یہ اکثریت کی رائے ہے۔ ٹی وی کا اینکر یا سرکاری ملازم خواہ کسی گریڈ کا ہو اس کو ویٹو کرنے کا حق نہیں رکھتا کیونکہ سندھ ایک وفاقی اکائی ہے۔ یہ وفاق کے ماتحت حکومت نہیں ہے بلکہ یہ وفاق کے ہم پلہ حکومت ہے اس کے تابع نہیں ہے لہٰذا اس کا فیصلہ آخری ہے۔ البتہ پارلیمان کا مشترکہ اجلاس دو تہائی اکثریت سے اسے قانونی طور پر بدل سکتا ہے۔ سرکاری ملازم یا کسی وفاقی وزیر کے پاس یہ اختیار نہیں کہ وہ صوبوں اور صوبائی حکومت پر حکم چلائے۔ مقامی اور صوبائی حکومت ہی صوبائی اور مقامی معاملات میں حرف آخر ہے۔ لہٰذا یہ تمام کارروائی سندھ پولیس کے سپرد کی جائے۔ رینجرز، نیب، ایف آئی اے اور دوسرے ادارے صرف سندھ پولیس کی مدد کریں۔ اس پر حکم نہ چلائیں تاکہ ہم بھی مہذب دنیا میں شامل ہوجائیں اور ڈنڈے کی حکمرانی کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے ختم کریں۔
وفاق اور وفاقی اکائیوں کے درمیان تنازعات
وقتِ اشاعت : December 24 – 2015