بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی اچانک دورے پر لاہور آئے۔ وزیراعظم نواز شریف سے ملاقات کی اور واپس دلی چلے گئے۔ جمع کے دن صبح کے وقت انہوں نے وزیراعظم پاکستان کو بتادیا تھا کہ وہ کابل سے دلی جاتے ہوئے لاہور میں کچھ عرصہ قیام کریں گے اور ان سے ملاقات کریں گے۔ چنانچہ وقت کی کمی کی وجہ سے کابینہ کے اراکین خصوصاً قومی سلامتی کے صلاح کار اور سرتاج عزیز بھی اس ملاقات میں شامل نہ ہوسکے۔ لاہور آنے پر وزیراعظم نے خود نریندر مودی کا استقبال کیا اور ہیلی کاپٹر پر ان کو اپنے گھر رائے ونڈ لے گئے جہاں دونوں وزرائے اعظم کے درمیان تقریباً 90منٹ تک ملاقات رہی جس میں باہمی دلچسپی کے امور خصوصاً پاک بھارت تعلقات پر تبادلہ خیال ہوا اس میں یہ فیصلہ ہوا کہ خارجہ سیکریٹریوں کی لیول پر جامع مذاکرات دوبارہ وسط جنوری میں ہوں گے جس میں تمام متنازعہ اور باہمی دلچسپی کے امور پر بات چیت ہوگی۔ نریندر مودی کا دورہ لاہور اچانک تھا جو دونوں ملکوں کے درمیان خوشگوار اثرات چھوڑگیا۔ ملک کی تمام بڑی پارٹیوں اور سیاسی رہنماؤں نے اس ملاقات اور دورے کا خیرمقدم کیا ہے اور امید ظاہر کی ہے کہ دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات زیادہ پائیدار بنیادوں پر استوار ہوں گے۔ تعلقات کو معمول پر لانے کا عمل پیرس سے شروع ہوا جہاں پر دونوں وزرائے اعظم کے درمیان ماحول پر بین الاقوامی کانفرنس کے دوران ملاقات ہوئی جو کہ بہت ہی مختصر رہی جس میں یہ فیصلہ کیا گیا کہ دونوں ملکوں کے تعلقات کو بہتر بنایا جائے گا اور خارجہ سیکرٹریوں کی ملاقات جلد ہوگی۔ اسی دوران یہ بھی طے ہوگیا تھا کہ پاکستان میں علاقائی کانفرنس میں بھارتی وزیر خارجہ بھی شرکت کریں گے اور اب کابل سے نئی دہلی واپس جاتے ہوئے بھارتی وزیراعظم چند دیر کے لیے لاہور رکے اور وزیر اعظم نواز شریف سے ملاقات کی اور باہمی دلچسپی کے امور پر تبادلہ خیال کیا، اس ملاقات سے ان توقعات کو تقویت ملی ہے کہ دونوں ملک متنازعہ مسائل کا پرامن حل تلاش کریں گے اور سرحدوں پر امن بلکہ دیرپا امن قائم ہوگا۔ اس ملاقات سے جنگ پسند اور انتہا پسند عناصر کو مایوسی ہوئی ہوگی جو تمام تنازعات کا فوجی حل چاہتے ہیں اور ان کی خواہش ہے کہ دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات کشیدہ رہیں۔ یہ بھی ایک خوش آئند امر ہے کہ سرحدوں پر گولہ باری، فائرنگ اور دراندازی کا عمل معطل ضرور ہوا ہے مگر مکمل طور پر بند نہیں ہوا ہے۔ دونوں ممالک آج کل ایک دوسرے پر الزامات کی بوچھاڑ نہیں کررہے ہیں۔ اگر یہی عمل کچھ عرصہ جاری رہا تو دونوں ملکوں کے درمیان تجارت، راہداری اور لوگوں کی آمدورفت میں اضافہ ہوگا اور تجارت بڑھے گی۔ باہمی تجارت کے فوائد عوام کو ملیں گے۔ پاکستان میں مریضوں کو سستے داموں ادویات دستیاب ہوں گی اور دونوں ملکوں کے درمیان تجارت اربوں ڈالر تک پہنچ جائے گا۔ آج کل بھارت اور چین کے درمیان باہمی تجارت 100ارب ڈالر سے تجاوز کرگئی ہے۔ اگر پاکستان گوادر سے بھارت کو تجارتی راہداری کے حقوق دے تو صرف راہداری کی مدمیں پاکستان سالانہ 10ارب ڈالر کماسکتا ہے۔ بہر حال دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کی بحالی سے عوام کو بہت فوائد حاصل ہوں گے یہ بھارت اور پاکستان میں فرقہ پرست جماعتوں اور رہنماؤں کی شکست ہے اور ان لوگوں کو مایوسی کا سامنا ہے جو لال قلعہ پر پاکستان کا پرچم لہرانے کے خواب دیکھ رہے ہیں اور اس طرف آئے دن بھارتی فرقہ پرست مسلمانوں کو نشانہ بنارہے ہیں اور ان سے کہہ رہے ہیں کہ بھارت چھوڑدیں اور پاکستان چلے جائیں۔ ایسے عناصر جو قوت برداشت سے عاری ہیں وہ پاکستان اور بھارت دونوں میں موجود ہیں جو جنگی جنون میں مبتلا ہیں اور ہر قیمت پر دونوں ملکوں کے درمیان جنگ چاہتے ہیں جبکہ 99فیصد عوام امن اور دوستی چاہتے ہیں وہ کسی بھی بہانے دونوں ممالک کے درمیان جنگ نہیں چاہتے البتہ تنازعات کا پرامن حل تلاش کرنا چاہتے ہیں۔ ان میں کشمیر سرفہرست ہے۔ اصولی طور پر کشمیری خود اپنے قسمت کا فیصلہ کریں۔ ان کو حق خودارادیت دیا جائے۔ اس میں کسی قسم کا دباؤ استعمال نہ ہو دونوں فریق اس معاملے میں مداخلت نہ کریں اور اقوام متحدہ یہ معاملہ حل کرائے کہ کشمیری کیا چاہتے ہیں اسی لئے کشمیری رہنماؤں نے دونوں ملکوں کے درمیان اچانک ملاقات کا خیرمقدم کیا ہے اور توقع ظاہر کی ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان تعلقات بہتر ہوں گے جس سے پورے خطے میں امن ہوگا اور دیرپا ہوگا۔
بھارتی وزیراعظم کا اچانک دورہ
وقتِ اشاعت : December 27 – 2015