گزشتہ روزبے نظیر بھٹو کی برسی منائی گئی۔ راولپنڈی کے لیاقت باغ میں اپنی تقریر ختم کرنے کے بعد ان پر قاتلانہ حملہ ہوا جس میں انہوں نے شہادت پائی۔ موت سے پہلے ان کی تقریر مثالی تھی، یادگار تھی اور اس تقریر نے ان کے عزت اور احترام میں بحیثیت رہنما اضافہ کیا ان کی جنگ کسی اور سے نہیں تھی ان کی جنگ فوجی آمر جنرل پرویز مشرف سے تھی ان سے معاہدہ ہوا۔ معاہدے میں انتخابات کرانے کا فیصلہ ہوا۔ جنرل پرویز مشرف کی مرضی کے بغیر وہ تشریف لائیں اور ان کا زبردست استقبال ہوا۔ پہلے ہی روز ان پر قاتلانہ حملہ کیا گیا، لاکھوں کے اجتماع میں ان کے ٹرک کو نشانہ بنایا گیا ان کو ہلاک کرنے کی کوشش کی گئی ۔ اس میں 200کے لگ بھگ پی پی کے کارکن شہید ہوئے۔ ظاہر ہے کہ انتہائی طاقتور دشمن لاکھوں کے جلوس میں بے نظیر بھٹو کے ٹرک کے قریب پہنچ سکتا تھا، کوئی عام دہشت گرد کے یہ بس کی بات نہیں۔ چنانچہ پہلا حملہ صدر پرویز مشرف کی جانب سے بے نظیر بھٹو کی پاکستان آمد کے خلاف ایک کارروائی تھی۔ اسی طرح لیاقت باغ کا واقعہ بھی اسی قسم کی کارروائی تھی جس کا مقصد بے نظیر بھٹو کو شہید کرنا تھا۔ بہر حال ان کی موت کے بعد ان کی پارٹی کو اقتدار ضرور ملا مگر پارٹی نے اپنے ووٹروں اور کارکنوں اور عوام الناس کے ساتھ انصاف نہیں کیا، ان سب کے اعتماد کو ٹھیس پہنچایا گیا جس کا نتیجہ ہم آج دیکھ رہے ہیں کہ پورے پاکستان سے پی پی پی کا صفایا ہوگیا ہے اور پی پی پی سندھ تک محدود ہے۔ وہاں پر بھی پی پی پی کے طاقتور دشمن اس پر زبردست طریقے سے حملہ آور ہیں جلد یا بدیر پی پی پی کی حکومت کا تختہ سندھ میں بھی الٹ جائے گا اور پی پی پی ایک بار پھر سڑکوں، محلوں اور گلیوں کی پارٹی بن جائے گی اس عمل سے دولت مند، مفاد پرست اور عوام دشمن لیڈر راہ فرار اختیار کریں گے اور حکمرانوں کے ساتھ مل کر اپنے مفادات کی نگرانی کریں گے۔ افسوسناک بات یہ ہے دوسری پارٹیوں کی طرح پی پی پی نے بھی بے ضمیر، کرپٹ اور بددیانت لوگوں کی زبردست پذیرائی کی ،احکامات کے تحت ان کو وزیر، اراکین اسمبلی اور سینٹ بنایا گیا اور ایماندار لوگوں کو نظر انداز کیا گیا۔ اب تمام بے ضمیر، کرپٹ اور بددیانت رہنما جلد یا بدیر پارٹی چھوڑدیں گے یا گوشہ نشینی اختیار کرلیں گے کسی جدوجہد میں حصہ نہیں لیں گے۔ انہوں نے اربوں اور کروڑوں روپے کمالئے اب ان کو روپوں کی مزید ضرورت نہیں ہے۔ حالات بتاتے ہیں کہ پی پی پی پر ریاستی ادارے بڑا حملہ کرنے والے ہیں اور اس حملہ میں ان کا بچنا ممکن نہیں ہے بلاول کا مستقبل بے نظیر بھٹو کی طرح تابناک نہیں ہے۔ بے نظیر مسلسل جدوجہد میں رہیں اور بالآخر ان کو قوم نے اس مسلسل جدوجہد کی وجہ سے قومی رہنما تسلیم کرلیا۔ بلاول کو بچپن سے پروٹوکول دیا گیا ہے پروٹوکول اور جدوجہد ساتھ ساتھ نہیں چل سکتے، جلد یا بدیر ان کے والد ان کو سیاست سے واپس بلالیں گے اور ان کو یورپ روانہ کردیں گے۔ وجہ۔۔۔؟ آنے والا دور زیادہ خطرناک، خوفناک اور مار دھاڑ کا شاہکار ہوگا جس میں ریاستی مفادات کا تحفظ بے رحمی سے کیا جائے گا۔ حکومت کے ہر مخالف کو ریاست مخالف گردانا جائے گا جس طرح نیپ کے رہنماؤں کے لئے زندگی بنگلہ دیش جنگ کے دوران تنگ کی گئی یا آج جو صورت حال بلوچستان اور قبائلی علاقوں میں ہے۔ ایسی صورت میں سیاست ایک مشکل عمل ہوگا صرف حکومتی پارٹی اور سرکاری اہلکاروں کے کارندوں کو سیاست کی اجازت ہوگی۔ بے نظیر کی پارٹی کو ایک اور جدوجہد کرنے والی بے نظیر کی ضرورت ہے جو عوامی مفادات کو اعلیٰ تر خیال کرے نہ کہ پروٹوکول کے دلدادہ شخص یا نوجوان کو جس کو عوام الناس کے مشکلات سے کوئی سروکار نہیں، لہٰذا آج کے دن بے نظیر کو خراج عقیدت پیش کرنا دراصل ان کی سیاسی اور عملی جدوجہد کو سلام کرنا ہے جنہوں نے دو فوجی آمروں جنرل ضیاء الحق اور جنرل پرویز مشرف کا مقابلہ کیا بلکہ ان کو شکست سے دوچار کیا اور ان کو ذلت کا سامنا کرنا پڑا۔
بے نظیر بھٹو کی پیپلز پارٹی
وقتِ اشاعت : December 29 – 2015