کوئٹہ: سابق وزیراعلیٰ بلوچستان نواب محمد اکبر بگٹی کے صاحبزادے نوابزادہ جمیل اکبر بگٹی نے دعویٰ کیا ہے کہ سابق صدر جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف نے اپنے وکیل کے ذریعے معافی کا پیغام بھیجا ہے مگر وہ اپنے والد کے قاتلوں کو معاف نہیں کرسکتے۔ جبکہ پرویز مشرف کے وکیل سید اختر شاہ ایڈووکیٹ نے کہا ہے کہ نواب بگٹی کی موت ایک سانحہ تھی اسے اللہ کی رضا سمجھ کر بھول جانا چاہیے ، ملک و قوم کی ترقی کیلئے آگے بڑھنا ہوگا۔ انسداد دہشت گردی عدالت کوئٹہ میں نواب اکبر بگٹی قتل کیس کی سماعت کے بعد احاطہ عدالت میں ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے گفتگو کرتے ہوئے نوابزادہ جمیل اکبر بگٹی نے بتایا کہ ‘‘کیس کی سماعت کے دوران پرویز مشرف کے وکیل اختر شاہ ایڈووکیٹ مجھ سے ملے۔ پہلے بھی انہوں نے ادھر ادھر سے ایسے پیغام بھیجنے کی کوشش کی کہ ہمیں نواب بگٹی کی شہادت کا بہت افسوس ہوا۔ آج ان کی جانب سے ایک عجیب درخواست آئی کہ میں آپ سے اکیلے میں ملنا چاہتا ہوں۔ میں نے کہا کہ عدالت میں ملاقات ہوگئی ، اتنا بس ہے۔ جمیل بگٹی نے مزید کہا کہ ‘‘ اس سے پہلے بھی ہم نے سنا تھا کہ وہ کہہ رہے تھے کہ معافی چاہیے۔ ہم نے کہا کہ پہلے قتل کررہے تھے تو بڑی بڑھکیں مارہے تھے ،اب عدالت آنے کی ہمت بھی نہیں۔ پرویز مشرف شاہ عبداللہ کی وفات پر ان کے خاندان سے تعزیت کے لئے سعودیہ عربیہ کی ساڑھے چار گھنٹے کی پرواز کیلئے تو درخواست کررہے تھے لیکن یہاں ایک گھنٹے کی پرواز لیکر کوئٹہ نہیں آتے۔ بڑے دعوے کرنے کے بعد آج معافی مانگنے کا پیغام دے رہے ہیں۔ ہم نے کہا کہ ہم ایسے قاتلوں کو معاف نہیں کرسکتے۔ ’’ جمیل اکبر بگٹی نے ذرائع ابلاغ سے گفتگو میں مزید کہا کہ ڈیرہ بگٹی میں دو ہزار پانچ میں ارکان قومی اسمبلی اور سینیٹرز پر مشتمل بارہ رکنی کمیٹی آئی تھی، اسی طرح اے آر ڈی کی کمیٹی مرحوم امین فہیم کی سربراہی میں بھی تھی اس کے بعد چوہدری شجاعت حسین وار مشاہد حسین کی کمیٹی بھی آئی تھی۔ میں نے خود تمام کمیٹیوں کو ڈیرہ بگٹی میں ایک ایک متاثرہ جگہ کا دورہ کرایا اور بتایا کہ کہاں کہاں بم گرائے گئے اور کیا واقعات ہوئے ، خواتین اور بچوں سمیت چھیاسٹھ لوگ شہید ہوئے۔ ان کمیٹیوں میں شامل سب کا اس بات پر اتفاق تھا کہ یہ واقعات نواب اکبر بگٹی کو شہید کرنے کی سازش تھی۔ ہمارے کہنے کا مقصد یہ ہے کہ یہ سازش دو ہزار پانچ میں شروع ہوئی اور دو ہزار چھ میں نواب اکبر بگٹی کو شہید کرکے اس پر عمل کیا گیا۔ ہم نے آج عدالت میں درخواست دی کہ وہ ان مذاکراتی کمیٹیوں میں شامل افراد کو بطور گواہ طلب کرے۔ اب عدالت پر منحصر ہے کہ وہ ان افراد کو طلب کرے جنہوں نے اپنی آنکھوں سے ڈیرہ بگٹی کے حالات دیکھے اور ان کی رائے بھی یہی تھی کہ نواب بگٹی کو قتل کرنے کی سازش کی گئی۔ جمیل بگٹی نے کہا کہ انہوں نے عدالت میں نواب اکبر بگٹی کی قبرکشائی کی درخواست بھی تھی جس پر اس سماعت میں بات نہیں ہوئی۔ میڈیا سے گلہ ہے کہ وہ میری بات کو درست انداز میں پیش نہیں کررہا۔ میں دو سالوں سے کہہ رہا ہوں کہ اقوام متحدہ کی نگرانی انٹرنیشنل فرانزک ٹیم سے نواب بگٹی کی قبر کشائی کرکے ڈی این اے ٹیسٹ کرائے اور ان کی موت کی وجوہات کا پتہ چلایا جائے۔ اس موقع پر نوابزادہ جمیل اکبر بگٹی کے وکیل سہیل راجپوت ایڈووکیٹ کا کہنا تھا کہ انہوں نے اپنے مؤکل کی جانب سے عدالت میں تین درخواستیں جمع کرائی ہے جس میں پرویز مشرف کے پاس جب دو عہدے تھے اس وقت وفاقیا ور صوبائی حکومت کے ان اجلاسوں کے منٹس منگوائے جائیں جن میں ڈیرہ بگٹی میں 17 مارچ 2005 کو ہونے والے پہلے آپریشن کی منظوری دی گئی تھی۔ دوسری درخواست قبرکشائی کے حوالے سے دی گئی ہے جبکہ ایک تیسری درخواست عینی شاہدین کی عدالت میں طلبی کے حوالے سے ہے جن کی تعداد 23 سے زیادہ ہیں لیکن اس وقت تک عدالت میں کوئی پیش نہیں ہورہا۔ ملزمان کے وکلاء4 صرف ٹیکنیکل باتیں کرکے وقت گزار رہے ہیں۔ حالانکہ ہم نے دو ہزار چھ میں ہی قتل کے مقدمے کی اندراج کی درخواست دی تھی لیکن کسی نے اس پر غور نہیں کیا۔ پھر ہم نے 2011 ء4 میں عدالت میں درخواست دی تب جاکر مقدمہ درج ہوا لیکن اس وقت بھی ضابطے کی کارروائی اور تفتیش کا عمل پورا نہیں کی اگیا۔ ہمارا کہنے کا مقصد یہ ہے کہ شروع دن سے ہی کسی کو گرفتار کرنے کی کوشش ہی نہیں کی گئی۔ تفتیش سے متعلق آج ہم جو درخواستیں جمع کرارہے ہیں یہ وہ کام ہے جو بہت پہلے ہوجانا چاہیے تھے۔ بڑے سطح پر یہ دعوے کئے گئے اس واقعہ کی تفتیش کی جائے گی لیکن کچھ نہیں ہوا اور لوگ صرف خانہ پوری کیلئے عدالت آتے ہیں۔