کوئٹہ: ڈھائی سالہ قوم پرست حکومت کا کارنامہ‘لاوراث 34بلوچوں کی شناخت تاحال نہ ہوسکی‘ 22مارچ 2013ء کی علی الصبح گڈانی موڑ کے قریب تربت سے کراچی جانے والی کوچ کو حادثہ پیش آیا‘حادثہ کوچز میں غیر قانونی پیٹرول و ڈیزل سے پیش آیا‘ جس کے باعث 34 افراد جاں بحق جبکہ 5 افراد جھلس گئے‘ جاں بحق افراد میں 12 کا تعلق ایک ہی خاندان سے تھا جو لسبیلہ کے رہائشی تھے دیگر سابق صوبائی وزیر اعلیٰ بلوچستان ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ کے علاقے سے تھا۔ افسوس کا مقام ہے کہ قوم پرست اور وسائل کے دعویدار بلوچ اور پشتون قوم پرستوں نے جاں بحق افراد کے ڈی این اے ٹیسٹ کے اخراجات تک نہیں دیے‘ المیہ یہ ہے کہ ذاتی طور پر جب میں نے کچھ وزراء سے اس متعلق سوالات کیے تو وہ اِس واقعہ سے بالکل لاعلم دکھائی دیے۔ آج بھی 34 لاوارث لاشیں ضلع لسبیلہ کے علاقے حب پیرکس روڈ شیخ قبرستان میں دفن ہیں‘ سابق وزیراعلیٰ بلوچستان واقعے کے بعد فوری طور پر میڈیا کے سامنے حرکت میں آگئے اور تحقیقات کا حکمنامہ جاری کیا‘ تحقیقاتی ٹیم کے سربراہ کمشنر قلات اکبرحریفال نے کی‘ ایک ماہ کے اندر تحقیقات کمیٹی کو رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت کی گئی‘ جاں بحق افراد کو معاوضہ دینے کا اعلان بھی کیا گیا ‘ مگر سب صرف اعلانات اور دعوؤں پر مبنی باتیں تھیں حقیقت آج بھی سب کے سامنے عیاں ہے کے تین سال گزرنے کے باوجود نہ تو ذمہ داروں کا تعین کیاجاسکا اور نہ ہی لواحقین کو معاوضہ سمیت ڈین این اے ٹیسٹ کے ذریعے ان کے پیاروں کی شناخت عمل میں لائی گئی‘ حد تو یہ ہے کہ جاں بحق کوچ ڈرائیور کے خلاف ایف آئی آر درج کی گئی‘تحقیقاتی رپورٹ کی حقیقت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ جب ڈپٹی کلکٹر کسٹم ریاض حسین نے سانحہ گڈانی سے قبل متعدد بار آئی جی بلوچستان، ایف سی حکام سمیت دیگر سیکیورٹی اداروں کو بلوچستان روٹ پر ہونے والی ایرانی پیٹرول وڈیزل کی اسمگلنگ کے حوالے سے درخواست ارسال کی مگر کوئی مثبت جواب اُن کو نہیں ملا جس کی وجہ سے گڈانی سانحہ رونما ہوا۔ ریاض حسین کا مزید کہنا تھا کہ اسمگلروں کی پشت پناہی میں سیاسی قوتیں شامل ہیں صرف ہمارا ادارہ اسمگلنگ کو روک نہیں سکتا، بلوچستان روٹ پر اسمگلنگ کرنے والے طاقتور ہیں ہماری بارہادرخواست پر کوئی خاص اقدام نہیں اٹھایا گیا۔رپورٹ کے مطابق متعدد چیک پوسٹوں سے گزرکر غیر قانونی پیٹرول اور ڈیزل ایران سے اسمگلنگ کی جاتی ہے مگر آنکھوں میں پٹی باندھی ہوئی ہے‘ سابق وزیراعلیٰ بلوچستان ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ کی جانب سے جب تحقیقاتی کمیٹی تشکیل دی گئی تو یہ بات ریاض حسین نے کمیٹی کے سامنے رکھی جو چیف سیکریٹری بلوچستان کے سامنے پیش کرنی تھی‘ اب افسوس کا مقام یہ ہے کہ ڈھائی سالہ دور حکومت کے وزیراعلیٰ ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے کوئی خاص اقدام تک نہیں اٹھایا آج تک یہ لاشیں امانتاََ حب شیخ قبرستان میں دفن ہیں مگر بے بس خاندان اپنی فریاد کس کے پاس لے جائیں۔ قوم پرستی کے دعویدار دونوں جماعتیں جب اقتدار سے باہر تھیں تب ساحل وسائل خودمختاری جیسے نعرے سمیت پُرآشوب انقلابی تقاریر کرتے رہے مگر جب اقتدار اِن کو میسر ہوا تو انہوں نے کیا کارنامہ انجام دیا اِس کا اندازہ صرف گڈانی سانحہ سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے‘ بہرحال پشتون قوم پرستوں کا نعرہ جنوبی پشتونستان‘ نیشنل پارٹی کا نعرہ ساحل اور وسائل جس پر افسوس نہیں کیا جاسکتا کیونکہ اقتدار کی کرسی تک رسائی حاصل کرنے کیلئے یہ خوش کن نعرے بہت کارآمد ثابت ہوتے ہیں۔ اب ان 34لاشوں کی شناخت کا معاملہ نئے وزیراعلیٰ بلوچستان نواب ثناء اللہ خان زہری اپنے دورے حکومت کے دوران حل کرینگے اور لواحقین کو معاوضہ فراہم کرینگے‘ بہرحال قوم پرستوں کے کارنامے تو ہمارے سامنے ہیں اب مسلم لیگ ن ڈھائی سالہ دور حکومت میں کیا تبدیلی لائے گی جس کے منتظر ہم بھی ہیں۔