|

وقتِ اشاعت :   January 2 – 2016

سال 2015ء کے دوران دنیا کے تمام نشریاتی اداروں کی شہ سرخیوں میں اول تو پناہ گزین رہے جو اپنے ممالک میں جنگی حالات کی وجہ سے یورپ کی جانب محو سفر رہے اور اس دوران متعدد پناہ گزین خطرناک راستوں کے باعث اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے‘ دنیا کی نظریں اُس وقت پناہ گزینوں کی طرف اٹھیں جب ایک شامی معصوم بچہ ایلیان کردی اپنے خاندان کے ہمراہ سمندری راستے سے یورپ جارہاتھا کہ کشتی ڈوبنے کے باعث اس کی ہلاکت ہوئی ۔ایلیان کردی کی تصویراور خبر دنیا بھر میں پھیل گئی اور پھر یورپی ممالک کے باشندوں کی اکثریت نے پناہ گزینوں کی آمدپر زور دیا اور اُن کی حمایت میں ریلیاں،مظاہرے کیے جس کے بعد یورپی ممالک پرمزید دباؤ بڑھ گیا اور انہوں نے شام،عراق سمیت جنگ اورمعیشت زدہ ممالک سے آنے والے پناہ گزینوں کو اپنے ہاں پناہ دینے کافیصلہ کیا جس میں خاص کردارجرمنی کارہاجہاں پناہ گزینوں کی بڑی تعداد پہنچی‘ مگر تاحال اس مسئلے پر اب بھی یورپ کے بعض ممالک متفق دکھائی نہیں دیتے کیونکہ وہ اسے اپنے خطے میں سماجی تبدیلیوں کاسبب سمجھتے ہیں جس کے باعث بہت سے یورپی ممالک نے اپنی سرحدوں کو سخت کیا ‘ پیرس حملے نے یورپی ممالک کونئی مصیبت میں ڈال دیا جس پر یورپی ممالک نے مختلف اجلاس طلب کیے اور پناہ گزینوں سمیت دہشت گردوں پرکڑی نظر رکھنے کیلئے پالیسیاں مرتب کرنے کی کوشش کی مگر باوجود اس کے یورپ کے بعض ممالک نے اس دہشت گرد واقعہ سے پناہ گزینوں کوجوڑنا غلط سمجھا اور فقط اسے صرف ایک دہشت گردی کی کاروائی سمجھی مگر کچھ قوانین پر غور کرنا شروع کیا تاکہ دہشت گردی کے واقعات سے فوری طور پر نمٹا جاسکے اور پناہ گزینوں پربھی کڑی نظر رکھی جاسکے ۔ دوسری طرف دولت اسلامیہ کے خلاف سخت ایکشن لینے کے فیصلے بھی کیے گئے تاکہ اُن کی جڑیںیورپی ممالک میں مضبوط نہ ہوسکیں‘ دولت اسلامیہ اس وقت شام،عراق سمیت مختلف ممالک میں کارروائیاں کررہی ہے اوردولت اسلامیہ کے خلاف مختلف ممالک برسرپیکارہیں مگر اب تک صورتحال جنگی ماحول جیسا ہی ہے کیونکہ دنیا کو ڈر ہے کہ اگر دولت اسلامیہ کے خلاف سخت ایکشن نہ لیاگیا تو وہ بہت سے ممالک کواپنی لپیٹ میں لے گا‘جس کے باعث بہت سے خطے شدید متاثر ہونگے اور حالات مزید ابتر ہوجائینگے۔ بہرحال امریکہ،جرمنی،فرانس سمیت بعض ممالک دولت اسلامیہ کے خلاف ایک پیج پر آنے کی بھرپور کوشش کررہے ہیں خاص کر شام جو دولت اسلامیہ کا گڑھ بناہوا ہے جہاں حالات انتہائی خراب ہیں اور بیشتر پناہ گزینوں کاتعلق بھی شام سے ہی ہے جو جنگ زدہ حالات سے تنگ آکراپنے ملک چھوڑنے پر مجبور ہوگئے ہیں ۔دولت اسلامیہ اس وقت ایک خوف کی علامت بن چکا ہے اور اس کے خلاف نہ صرف امریکہ،یورپ بلکہ مسلم ممالک بھی ایکشن میں نظرآتے ہیں۔ دولت اسلامیہ نے 2015ء کے دوران بہت بڑی کارروائیاں بھی کیں مگر وہیں ان کے اہم کمانڈرز بھی فضائی وزمینی حملوں میں ہلاک ہوئے۔ مگر فی الوقت یہ کہنا مشکل ہوگا کہ دولت اسلامیہ کس قدر کمزور ہوا ہے کیونکہ اب بھی اُ ن کی کارروائیاں جاری ہیں جبکہ دوسری جانب اُس کے خلاف برسرپیکار ممالک بھرپور آپریشن کررہے ہیں تاکہ اس کو مزید کمزورکرکے آنے والے وقت میں اس کا خاتمہ کیاجاسکے۔بہرحال خوف کے بادل ابھی تک منڈلاتے نظر آرہے ہیں اور اس کے خاتمے کیلئے امیدیں بھی لگائی جارہی ہیں۔اب 2016ء جنگی حالات کیلئے کیسا رہے گا یہ کہنا بہت مشکل ہے کہ دہشت گردی کا مکمل خاتمہ ہوگا یا حالات 2015ء جیسے ہی رہینگے۔ ان جنگی حالات کے باعث بہت سے معصوم جانوں کا ضیاع ہوا وہی لاکھوں کی تعداد میں لوگ اپنا ملک چھوڑنے اور مہاجرین جیسی زندگی گزارنے پرمجبور ہیں مگر یہ دنیا کے ترقی یافتہ ممالک کی اب بھی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ ان جنگ اور معیشت زدہ حالات سے آنے والے افراد کواپنے یہاں پناہ دیں تاکہ دنیا میں انسانیت کو پروان چڑھانے سمیت بین اقوامی برادری کے فروغ کا سبب بھی بن سکے۔