|

وقتِ اشاعت :   January 3 – 2016

سندھ حکومت اور رینجرز کے درمیان کشیدگی اُس وقت سامنے آئی جب ڈاکٹر عاصم حسین کو سندھ ہائیر ایجوکیشن کمیشن کے دفتر کے سامنے سے سادہ کپڑوں میں ملبوس اہلکاروں نے حراست میں لیا تھا اور قومی احتساب بیورو کی ترجمان نے ان کی گرفتاری سے لا تعلقی کا اظہار کیا تھا رینجرز نے ڈاکٹر عاصم کو چوبیس گھنٹے کے بعد انسداد دہشت گردی کی علامت کے جج سلیم رضا بلوچ کے سامنے پیش کیا اور آگاہی دی تھی کہ انہیں روز کیلئے حراست میں رکھاگیا ہے اس تحریری بیان میں کوئی الزام عائد نہیں کیا گیا تھا صرف اتنا کہا گیا تھا کے ان سے تفتیش کی جائے گی ۔ڈاکٹرعاصم حسین سابق صدر آصف زرداری کے قریبی دوست ہیں ان کی گرفتاری پر آصف زرداری کی جانب سے سخت ردعمل کا اظہار کیا گیا تھا ۔ کراچی میں سابق وفاقی وزیر پیٹرولیم ڈاکٹر عاصم کے خلاف انسداد دہشت ایکٹ کے تحت مقدمہ درج کیا گیا تھا یہ مقدمہ ناظم آباد تھانے پر رینجرز کے سپریڈینٹ محمد عنایت اللہ دورانی کی مدعیت میں 25 نومبر کو درج ہوا جس میں مدعی نے موقف اختیار کیا کہ سندھ حکومت کی منظوری سے جوائینٹ انٹروگیشن ٹیم تشکیل دی گئی تھی اس ٹیم کے روبرو ڈاکٹر عاصم حسین نے انکشاف کیا ہے کہ اُنہوں نے ڈاکٹر ضیاء الدین ہسپتال واقع نارتھ ناظم آباد اور کلفٹن برانچ میں لیاری گینگ وار جہادی تنظیموں اور متحدہ قومی موومنٹ کے زخمی دہشتگردوں اور مجرموں کو جو رنجرز اور پولیس مقابلوں میں زخمی ہوئے تھے علاج کی سہولیات فراہم کی ہیں ایف آئی آر کے مطابق ڈاکٹر عاصم نے اختیارات کا نا جائز استعمال کر تے ہوئے پی ایس او اور سوئی سدرن گیس کمپنی میں بطور ایڈمینسٹرٹر ناجائز پیسہ لیکر بھرتیاں کیں اور من پسند لوگوں کو رشوت لے کے ٹھیکے دیئے اس کے علاوہ ایف آئی آر کے مطابق ڈاکٹر عاصم جانتے ہوئے بھی خلافِ قانون ملزمان کا رعائتی علاج معالجہ کراتے رہے اور وہ ایم کیو ایم کے رہنماؤں رؤف صدیقی ، وسیم اختر ،سلیم شہزاد اور انیس قائمخانی کے کہنے پر کرتے تھے جبکہ پیپلز پارٹی کے رہنماء قادر پٹیل لیاری گینگ وار کے دہشت گردوں کے علاج کے لیے فون کرتے تھے اس کے علاوہ قانون شکنی کرتے ہوئے علاج کے بہانے سے مفرور ملزمان دہشت گردوں کو اپنے ہسپتال میں پناہ دیتے تھے ۔۔ یاد رہے ایف ائی آر میں نامزد رکن قومی اسمبلی وسیم اختر کراچی میں بلدیاتی انتخابات میں ایم کیو ایم کے میئر کے لیے نامزد اُ میدوار ہیں اس سے قابل وہ کراچی میں محکمہ داخلہ کے مشیر بھی رہے چکے ہیں۔یہ مقدمہ ڈاکٹر عاصم پر باضابطہ طور پر تقریباََ تین ماہ بعد درج کیا گیا تھا واضح رہے کہ شہر میں امن و امان کی صورت حال پر ہونے والے اعلیٰ سطح اجلاس کے باوجود سندھ میں رینجرز کی خصوصی اختیارات کی مدت میں توسیع کے معاملے پر کوئی پیش رفت نہیں ہو سکی اس اجلاس میں وزیر اعظم میاں نواز شریف فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف نے بھی شرکت کی تھی ۔ پاکستان پیپلز پارٹی اور ایم کیوایم رینجرز آپریشن پر تحفظات کا اظہار کرتے رہے ہیں مگر ڈاکٹر عاصم کی گرفتاری کے بعد اس میں شدت آئی رینجرز کو حاصل پولیس کے اختیارات میں توسیع پر گذشتہ مرتبہ بھی حکومت نے اعتراض کیا تھا لیکن بعد میں سابق صدر آصف علی زرداری کی مداخلت پر اس اعلان کے ساتھ نوٹیفیکشن جاری کر دیا گیا تھا کہ سندھ اسمبلی سے اس کی منظوری لی جائے گی لیکن عملدراآمد نہیں ہو سکا ۔ اس بار بھی رینجرز کے اختیارات میں توسیع کرنے میں سندھ حکومت ٹال مٹول سے کام لیتی رہی ساتھ ہی اپنے تحفظات کا بھی اظہار کرتی رہی ۔ رینجرز کے پولیس اختیارات کی مدت ختم ہونے کے بعد ڈاکٹر عاصم حسین کو گلبرگ تھانے میں پولیس کے حوالے کردیا گیا تھا جس کے بعد جمعے کو دہشت گردی کے مقدمے سے بریت کے بعد نیب نے انہیں ہائی کورٹ سے سیدھا نیب عدالت کے جج کے سامنے پیش کیا تھا نیب کے افسر نے پندرہ روز ریمانڈ کی درخواست کی تاہم جج سعید قریشی نے سات روز کا ریمانڈ دینے کا فیصلہ کیا کراچی میں احتساب عدالت نے سابق وفاقی وزیر عاصم حسین کو قومی احتساب کے بیورو کے حوالے کر دیا تھا اور واضح کیا کہ نیب کے علاوہ کسی اور ادارے کی ان تک رسائی نہیں ہوگی جمعے کو پولیس نے عدالت کو بتایاتھا کے ڈاکٹر عاصم پر عائد دہشت گردی کے الزامات میں کوئی حقیقت نہیں ہے ۔ اس سے قابل ڈاکٹر عاصم حسین 106 روز رینجرز اور پولیس کی حراست میں تھے رینجرز نے ان پر دہشتگردوں اور ملزمان کے علاج معالجے اور پناہ دینے کے الزامات عائد کئے تھے لیکن پولیس نے اپنی تحقیقات میں ان الزامات کو مسترد کر دیا ۔ اس مقدمے کے تفتیشی افسر ڈی ایس پی الطاف حسین نے عدالت کو بتایا تھا کہ ڈاکٹر عاصم حسین پر دہشت گردی میں ملوث ہونے کے ٹھوس ثبوت نہیں مل سکے لہذاء انھیں رہا کر دیا گیا ہے جس پر عدالت نے سوال کیا کہ انھیں رہا کر دیا گیا ہے یا رہا کیا جائے گا ؟ تفتیشی افسر نے آگاہ کیا کہ ڈاکٹر عاصم رہا ہیں لیکن عدالت کے احترام میں انھیں لایا گیا ہے ۔سندھ حکومت اور رینجرز میں اختیارات کی کشیدگی کا عکس عدالت میں بھی نظر آیا جب رینجرز کے وکلاء نے ڈاکٹر عاصم کو بری نہ کرنے کی درخواست کی تھی ۔ پبلک پراسکیوٹر کا موقف تھا کہ پولیس کے تفتیشی افسر نے ان سے مشاورت نہیں کی جوغلط بات ہے کہ عاصم حسین کے خلاف کوئی شواہد نہیں ہیں اُنھوں نے کہا ڈاکٹر عاصم نے دہشتگردوں کا علاج کیا وہ مطلوب ملزمان تھے لیاری امن کمیٹی کے ظفر بلوچ اور عمر کچی سمیت دیگر کے علاج کا ریکارڈ موجود ہے اس کے علاوہ ڈپٹی میڈیکل آفیسر بھی اعترافی بیان میں یہ بات قبول کر چکے ہیں یہ تفتیشی افسر نے اعلیٰ سیاسی عہددارن اور اعلیٰ پولیس حکام کے کہنے پر یہ کیا ہے۔ ڈاکٹر عاصم حسین نے عدالت کو مخاطب ہو کر کہا تھا کہ جو بل پیش کیے گئے ہیں وہ کمپیوٹر سے تیار کیے گئے ہیں ان کا کوئی میڈیکل ریکارڈ دستیاب نہیں ہے کہ کس ڈاکٹر نے اور کیا علاج کیا اُنکا کہنا تھا کہ سی سی ٹی وی ریکارڈنگ سے معلوم کیا جا سکتا ہے کہ کس طرح رینجرز نے ہسپتال کا محاصرہ کر کے ریکارڈ حاصل کیا ڈاکٹر عاصم نے کہا کے رینجرز کی حراست کے دوران مختلف اداروں نے پوچھ گچھ کی ہے اس موقع پر قومی احتساب بیورو کے وکیل نے یہ درخواست پیش کی تھی جس میں کہا گیا تھا کہ سرکاری زمین پر قبضے رقومات کی غیر قانونی طریقے سے منتقلی اور دیگر معاملات میں ان سے تفتیش کرنی ہے لہذاء انھیں نیب کی تحویل میں دیا جائے جس کے بعد اُنھیں نیب کے حوالے کر دیا گیا تھا ۔ دوسری جانب بدعنوانی کے خاتمے کے حوالے سے منعقید سیمینار سے وزیراعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ نے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کے رینجرز کی ڈیوٹی ہے کہ وہ سنگین جرائم جن میں دہشتگردی ،ٹارگٹ کلنگ، اغواء برائے تاوان اور بھتہ خوری کی روک تھام کریں جن کے لیے انھیں اختیارات دئی گئے تھے انھوں نے کہا کے رینجرز اور نیب نے کرپشن کے سلسلے میں کچھ اقدامات کیے ہیں مگر ان دوستوں کے علاوہ ایف آئی اے بھی ہے لیکن ایف آئی اے کی یہ ذمہ داری نہیں کہ وہ صوبے میں کرپشن پر کام کرے اور یہ اُن کا مینڈیٹ کے خلاف ہے اُن کا یہ بھی کہنا تھا کہ اگر صوبے ناکام ہوگئے ہیں اور وفاق میں کوئی کرپشن نہیں ہے تو پھر یہ سب لوگ یہاں آکر حملہ کر لیں چاہے وہ نیب ہو یا کوئی بھی وفاقی ایجنسی آجائے۔ وہاں ایک ہفتے تک رینجرز کہ اختیارات میں توسیع نہ ہونے کے بعد وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار نے پریس کانفرنس میں کہا کے رینجرز کے اختیارات میں توسیع میں تاخیر کے ذریعے کراچی آپریشن کا رخ موڑنے کی کوشش کی جا رہی ہے چوہدری نثار نے کہا کہ پچھلے دو ہفتے سے وزارت داخلہ حکومت سندھ سے کہے رہی ہے کہ وہ فائل منظور کریں وزیر داخلہ نے کہا کہ رینجرز کو بیرکس میں واپس بھجوانے کا سندھ حکومت کو قانونی حق حاصل ہے لیکن مخصوص انداز سے اس ادارے کی تضحیک کی جارہی ہے اُنھوں نے سند ھ حکومت کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کے ایک شخص کے لیے آپریشن کو متنازع نہ بنایا جائے ۔ وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار کی پریس کانفرنس کے بعد سندھ حکومت کہ مشیرِاطلات مولابخش چانڈیو نے کراچی میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں کراچی آپریشن پر اعتماد ہے اور آپریشن جاری رہے گا اُنھوں نے کہا کہ وفاق نے سند ھ کو دھمکیاں دین شروع کر دیں ہیں اگر ان کے پاس ثبوت ہیں تو وہ لے آئیں تاہم رینجرز کو بیچ میں نہ لائیں رینجرز کو ہمارا اعتماد حاصل ہے وہ ہمارے ہی کہنے پر آئے تھے اُنھوں نے الزام عائد کیا کے چوہدری نثار اپنی پا رٹی کے مفاد کے لیے سارے معاملے کو خراب کر رہے ہیں ساتھ ہی مشیرِ اطلاعات سندھ نے اس الزام کو مسترد بھی کیا کہ سندھ حکومت ایک شخص کو بچانے کے لیے رینجرز کے اختیارات میں توسیع نہیں کر رہی ۔ 12دسمبر کو سندھ اسمبلی کا اجلاس اسپیکر آغا سراج دورانی کی زیرِصدرات ڈیڑھ گھنٹے کی تاخیر سے شروع ہوا رینجرز اختیارات کے معاملے پر اپوزیشن ارکان اسپیکر کے ڈائس کے سامنے کھڑے ہو کر احتجاج کرتے رہے اس دوران ایم کیو ایم ارکان اپنی نشستوں پر بیٹھے رہے جبکہ اپوزیشن کے ارکان شور شرابہ کرتے رہے جس پر اسپیکر اسمبلی نے کہا کہ اگر اپوزیشن کے 15ارکان ایک ساتھ بولیں گے تو کیسے اجلاس چلے گا اپوزیشن کا احتجاج اور اسمبلی کاروائی ساتھ ساتھ چلتی رہی اسپیکر نے کہا اگر مجھ پر اعتماد نہیں ہے توتحریک عدم اعتماد لے آئیں اسپیکر نے کہا ۲ بجے اجلاس ختم ہو جائے گا پھر کچھ نہیں ہو پائے گا اپوزیشن ارکان نے کہا کہ اسمبلی میں جاری بزنس اتنا اہم نہیں اپوزیشن کے احتجاج کے دوران وزیر اعلیٰ سند ھ مسکراتے رہے جس پر اپوزیشن ارکان نے شیم شیم کے نعرے لگائے اپوزیشن کے شور شرابے کے باعث اجلاس اگلے دن صبح دس بجے کے لیے ملتوی کر دیا گیا تھا ۔ ْقومی اسمبلی میں قائدِ حزبِ اختلاف خورشید شاہ بھی کافی گرم نظر آئے اُنھوں نے قومی اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ سند ھ میں گورنر راج لگائیں یا ایمرجنسی لگائیں بات اب دور تک جائے گی ہم ایک دوسرے کو چُور چُور کہتے ہیں اور وہ آجاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ میرے ہم وطنو ! تم سب چُور ہو اگر کسی کی پگڑی میں ہاتھ ڈالا تو سب کے دو دو ہاتھ ہیں کسی کے پانچ ہاتھ نہیں اُنکا کہنا تھا کہ اگر ڈاکٹر عاصم کی ویڈیو سامنے آئے گی تو رانا مشہود کی بھی ویڈیو سامنے لائی جائے ۔ اس تمام معاملے پر ایم کیو ایم خاموشی اختیار کیے ہوئے ہے جبکہ تحریک انصاف اور مسلم لیگ فنکشنل رینجرز کو پولیس اختیارات دینے کا مطالبہ کرتی نظر آتی ہیں ۔رینجرز کی کارکردگی پر عوام مطمئن دکھائی دیتے ہیں اورکراچی کا موجودہ امن و امان کا کریڈیٹ سندھ پولیس کے ساتھ ساتھ رینجرز کو جاتا ہے تا ہم رینجرز کے معاملے پر وفاق اور سندھ کی محاز آرائی کا فائدہ دہشتگردوں کوہو سکتا ہے اور کراچی آپریشن پر بھی اثر انداز ہو گا لہذاء اس معاملے کو خوش اسلوبی سے طے ہونا چاہیے ہے تمام اداروں کو اپنے قانونی دائرے میں رہتے ہوئے مزید بہتر کام کرنے کی ضرورت ہے۔