|

وقتِ اشاعت :   January 5 – 2016

خوبصورت پہاڑوں کے درمیاں واقع وادی کوئٹہ پچاس ہزار کی آبادی کے لیے مختص کیا گیا تھا جس کی سڑکیں ،مکانات اُسی حساب سے ترتیب دئیے گئے تھے مگر وقت کے ساتھ ساتھ آبادی کے اضافے کے باعث یہ وادی انگنت مسائل کا شکار ہوتی چلی گئی جس میں ٹریفک ،چھوٹی سڑکیں ،گیس، پانی کی قلت جیسے مسائل سرفہرست ہیں۔ سنہ 1935ء کے زلزلے کے پیشِ نظر کوئٹہ شہر میں بلڈنگ کوڈ ایکٹ متعارف کیا گیا جس کے تحت 30 فٹ سے بلند عمارت قائم کرنا قانونی جرم ہے بڑھتی آبادی کے باعث ملک کے دیگر شہروں کی طرح کوئٹہ شہر میں بھی فلیٹ سسٹم عروج پا رہا ہے جو کہ زلزلہ زون کی حیثیت سے کوئٹہ شہر کے لیے کسی نیک شگون کی علامت نہیں تاہم 2015 میں بلڈنگ کوڈ کی خلاف ورزی کرنے والوں کے خلاف کاروائی میں حکومتی مشنری پچھلے ادوار کی نسبت کافی تیز عملدرآمد کراتے نظر آئی دوسری جانب ٹریفک کے مسائل کے حل کے لیے ٹریفک پولیس کی کارکردگی بھی کافی مثبت دکھائی دیتی ہے ایس پی ٹریفک حامد شکیل کی جانب سے پیش کی جانے والی سال 2015 کی رپورٹ کے مطابق سال 2015 میں عوام الناس کو ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی پر مختلف اوقات میں کئے گئے جرمانوں کی مد میں مجموعی طور پر تین کروڑ تیس لاکھ تنیتیس ہزار سات سو 33,033,700) ( روپے کا جرمانہ عائد کیا گیا ۔یقیناًٹریفک پولیس کی جانب سے یہ ایک اچھا اقدام ہے اس طرح سے قانون کی خلاف ورزی جس میں غلط پارکنگ اور پہلم پہل کی جلدی کی وجہ سے ٹریفک کی روانی میں مسائل کی وجہ بننے والی وجوہات میں کمی آئے گی لیکن یہ مستقل حل نہیں ہے۔اسی طرح ایک مسئلہ گیس کی کمی کاہے آجکل کوئٹہ شہر میں سردی کی شدت میں اضافہ ہوا ہے جسکی وجہ سے گیس کا استعمال ہر گھر اور دفتر کی ضرورت ہے لیکن گیس میسر ہی نہیں ہے جس کی وجہ سے عوام کو شدید مشکلات کا سامنا ہے بقول محکمہ سوئی سدرن گیس کہ ہم کوشش کر رہے ہیں کہ گیس کی فراہمی ہر علاقے میں ممکن بنائیں بہرحال ان سب مسائل کی ایک ہی وجہ ہے وہ ہے آبادی کا بڑھتا ہوا سونامی۔ حکومت کی جانب سے کوئی ایسا میسر اقدام نظر نہیں آتا جس میں اس سنگین نوعیت کے مسئلے پر توجہ دی گئی ہو شہر میں بڑھتے ہوئے پلازے ،فلیٹس ، دو تین منزلہ گھر اس بات کا منہ بولتا ثبوت ہیں کہ آبادی تیزی سے تجاوز کرتی جارہی ہے ۔چھوٹی سڑکوں پر ٹریفک کا ہجوم ، سورج کو کھاتی بلند عمارتیں اور گیس پریشر میں کمی سمیت ان تمام مسائل پر تو سمینارز اور احتجاج اکثر دیکھنے میں آتے ہیں مگر ان تمام مسائل کی جڑ کی جانب کو ئی توجہ نہیں دلاتا جو کہ ضرورت سے زیادہ آبادی ہے ۔ ہم دیکھ رہے ہیں کہ کوئٹہ شہر کے اطراف کہ علاقوں میں مختلف ہاؤسنگ اسکیمز چل رہے ہیں لیکن ان میں بھی اکژیت ایسی اسکیمز کی ہیں جن کی گارنٹی نہیں کہ آیا یہ اسکمیز واقعی مستند ہیں یا پھر فراڈ۔ خیر خدا کرے یہ اسکیمز درست ہی ہوں ایسی اسکیمز سے کوئٹہ شہر میں کرائے کہ مکانات میں رہنے والے اکثر افراد سائیڈ ائریاز کا رخ کریں گے کچھ یہ پلاٹس خرید لیں گے اور اکثر ان پلاٹس پر بننے والے مکانات کم کرایہ ہونے کی وجہ سے اپنا لیں گے جو کہ شہر کے لیے خوش آئند ہو گا تاہم حکومت بلوچستان کی بھی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ پہلے تو حکومت ان جاری اسکیمز کی جانچ پڑتال کرائے کہ کہیں کوئی دھوکا دہی تو نہیں کیونکہ پہلے بھی اکثر افراد اپنی جمع پونجی گنوا بیٹھے ہیں اور کئی اپنی محنت کی کمائی سے اقساط ادا کرتے رہے اور جب وقت آیا تو اُن دفاتر پر تالے دیکھے جس سے اُن افراد کی اُمیدیں ہمیشہ کے لیے دم توڑ گئیں۔حکومت کا فرض بنتا ہے کہ حکومتی سطح پر کوئٹہ شہر کے اطراف میں آسان شرا ئط پر ایسی اسکمیز بنائی جائیں جس سے عوام کے لیے سستے گھر کی فراہمی یقینی ہو جس میں بنیادی سہولیات کے ساتھ ساتھ اسکول ،ہسپتال ،پارک وغیرہ شامل ہوں ۔حکومت کے اس عمل سے ایک تو شہر کی آبادی کا کافی حصہ دوسری جانب منتقل ہو گا وہیں شہر کے ٹریفک، بلڈنگ کوڈ خلاف ورزی اور گیس کی کمی جیسے مسائل میں نمایاں کمی نظر آئے گی ۔جس حساب سے سڑکیں ہیں اسی کے مطابق ٹریفک رواں ہوگی جتنی آبادی ہوگی اُتنی ہی عمارتیں ہوں گی اور جس آبادی کے لحاظ سے 30 سال پہلے گیس پائپ لائنز بچھائی گئیں تھیں،اُسی حساب سے گیس کے کنکشن بھی معمول پر آجائیں گے۔بس سنجیدہ اقدا مات کی ضرورت درکار ہے ۔