ایران اور سعودی عرب کے درمیان تعلقات ماضی کی نسبت اب زیادہ خراب دکھائی دے رہے ہیں۔ شیخ نمر النمر کی سزائے موت سے شروع ہونے والی حالیہ کشیدگی میں بہت تیزی سے اضافہ ہوا ہے اور پھر تہران میں سعودی سفارتخانے کو نذر آتش کیے جانے اور ریاض سے ایرانی سفارتکاروں کی بے دخلی جیسے اقدامات نے جلتی پر تیل کا کام کیا ہے۔ خطے میں سیاسی اور مذہبی اثر ورسوخ کی دوڑ میں ریاض اور تہران کے درمیان جاری مقابلہ بازی کے اثرات خلیج کے پرسکون پانیوں سے کہیں دور تک پھیل سکتے ہیں اور شاید ہی مشرق وسطیٰ کا کوئی ملک ایسا ہو جو ان دونوں کی کشیدگی سے متاثر ہوئے بغیر رہ سکے۔ اگرچہ حالیہ کشیدگی کے باعث ابھی تک دونوں ملکوں میں براہ راست کوئی ٹکراؤ نہیں ہوا ہے، تاہم یہ کشیدگی اتنی ہی خطرناک دکھائی دیتی ہے جتنی سنہ 1980 کی دہائی میں تھی۔ ایران سے سعودی عرب،بحرین،سوڈان اور اب کویت نے بھی سفارتی تعلقات ختم کردئیے ہیں جو نیک شگون نہیں کیونکہ اس طرح سے اسلامی ممالک ایک دوسرے کے مد مقابل ہونگے جو خطے کو شدید متاثر کرکے رکھ دے گا۔ سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ او آئی سی بھی اس قدر مضبوط اور مستحکم نہیں جو بہت بڑا کردار ادا کرے البتہ چند ایسے ممالک ہیں جو اس کشیدگی میں ثالثی کا کردار ادا کرتے ہوئے دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی کو کم کرسکتے ہیں۔ پاکستان اور ترکی کی جانب سے بھی مثبت بیانات سامنے آئے ہیں کیونکہ یہ کشیدگی ان ممالک کو بھی اپنی لپیٹ میں لے سکتا ہے جس کے بنیادی اسباب شیعہ اور سنی فرقہ واریت کی صورت میں سامنے آئینگے۔ اس وقت مسلم ممالک اس کشیدگی کے متحمل نہیں ہوسکتے کیونکہ شام،عراق،افغانستان جبکہ پاکستان خود بھی دہشت گردی کا شکار ہے مگر پاکستان کی صورتحال ان ممالک سے قدرے بہتر ہے مگر دہشت گردی کے سائے یہاں پر بھی منڈلارہے ہیں کیونکہ شدت پسند ان مواقعوں کا بھرپور فائدہ اٹھاسکتے ہیں اور سنی شیعہ کی بنیاد پر پھوٹ پھیلا کر اپنی جڑیں مضبوط کرنے کی کوشش کرینگے جس سے بعض اسلامی ممالک عدم استحکام کا شکار ہونگے۔ اب اسلامی ممالک کے سربراہوں کو او آئی سی یا اسلامی کانفرنس منعقد کرنے کی اشد ضرورت ہے تاکہ حالیہ سعودی وایران کشیدگی کو کم کیا جا سکے ماضی ہمارے سامنے ہے کہ پہلے بھی ایسے تناؤ دیکھنے میں آئے تھے مگر اس بار جو معاملات سامنے آرہے ہیں وہ دیگر اسلامی ممالک کو بھی بڑی مشکل میں ڈال رہے ہیں اگر یہ معاملہ جلد حل نہ ہوسکا تو جنگی صورتحال پیدا ہوگی جس سے اسلامی ممالک مختلف اتحاد کا حصہ بھی بن سکتے ہیں جو کہ اسلامی ممالک کے مفادات کے خلاف ہوگا۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ مسلم ممالک کے حکمران سعودی و ایران کشیدگی کو کم کرنے کیلئے کس طرح سنجیدگی سے کردار ادا کرینگے جو اس مسئلے کو حل کرنے سمیت دونوں ممالک کے درمیان تناؤ کم کرنے میں سود مند ثابت ہوگی۔اگر حالیہ تناؤکو کم کرنے کیلئے کوششیں نہ کی گئیں تو یقیناًحالات ماضی کی طرف بڑھیں گی جس سے اسلامی ممالک کے علاوہ دنیا کے دیگر ممالک بھی متاثر ہونگے کیونکہ شام ،عراق اور افغانستان کے حالات کے باعث لاکھوں افراد نے یورپ کا رخ کیا اور پُر خطرراستوں کا چناؤ کرتے ہوئے یورپی ممالک تک پہنچے جہاں وہ مہاجرین کی زندگی گزارنے پر مجبور ہوگئے ہیں اگر خطے میں یہ صورتحال برقرار رہی تو مزید لاکھوں کی تعداد میں لوگ اپنی جانیں بچانے کیلئے اپنے ممالک چھوڑنے پر مجبور ہونگے۔ یہ تناؤ کسی صورت مسلم ممالک کیلئے سود مند نہیں اس میں جہاں اسلامی ممالک کو اپنا کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے وہیں دنیاکے دیگر ممالک کو بھی آگے بڑھنا ہوگا تاکہ دنیا میں جنگی جیسی صورتحال پیدا نہ ہوسکے۔