مغربی ایشیاء میں تنازعہ زیادہ شدت اختیار کرتا جارہا ہے ایران کی جانب سے کچھ احتیاط کا مظاہرہ ہوتا نظر آرہا ہے مگر سعودی عرب کے رویے میں سختی ہے جس سے کشیدگی میں اضافہ ہورہا ہے۔
سعودی عرب کے وزیر خارجہ دو روزہ دورے پر پاکستان پہنچ گئے ہیں اوروہ پاکستانی حکام سے بات کریں گے۔ پاکستان نے اعلانیہ طورپر 34ممالک کے اتحادمیں شمولیت اختیار کر لی ہے مگر دیکھنا یہ ہے کہ پاکستان اس فوجی اتحاد میں کیا کردار ادا کرنا چاہتاہے ۔ ظاہر بات ہے کہ ملک کے اندر سیکورٹی کی صورت حال اور بھارت کے ساتھ سرحدوں پر کشیدگی کی وجہ سے پاکستان شاید کوئی فوجی کردار ادا نہ کر سکے لیکن یہ عین ممکن ہے کہ اس جنگ میں کوئی اورکردار ادا کرے ۔پاکستان ایران کا پڑوسی ہے دونوں کی مشترکہ سرحد 900کلومیٹرطویل ہے ۔ ساحل مکران تقریباًتین ہزار کلو میٹر طویل ہے اس میں سے 1800کلومیٹر ساحل ایران کے پاس ہے اور 1200کلو میٹر پاکستان کا ہے ۔ شاید مغربی ایشیاء میں جنگ کا اصل مرکز ساحل مکران ہی ہوگا جس میں آبنائے ہرمز موجود ہے ۔ عرب ممالک اور ایران کے درمیان جنگ کی صورت میں یہ بات یقینی نظر آتی ہے کہ آبنائے ہرمزجہاز رانی کے لئے کھلانہیں رہے گا ۔ایران پہلے ہی اس کو بند کرسکتا ہے تاکہ دنیا کی چالیس فیصد تیل آبنائے ہرمز سے نہ گزر سکے اور دنیا بھر میں تیل کا بحران پیدا ہو۔ امریکی بحری بیڑہ اور خصوصاً اس کا پانچواں بحری بیڑہ خلیج میں موجود ہے اور ممکن ہے کہ اس گزرگاہ کو کھلا رکھنے کے لئے اس پر قبضہ کرے اور ایران کو آبنائے ہرمز سے بے دخل کردے ۔امریکا اور اس کے اتحادیوں کا یہ عمل اعلان جنگ تصور ہوگا ایسی صورت میں ایران امریکی بحری بیڑہ پر میزائلوں سے حملے کر سکتا ہے ایسی صورت میں مکمل جنگ ہوگی ایران اپنے تمام رضا کار یمن ‘ عراق‘ شام سے واپس بلا کر اپنا دفاع کرے گا ۔ ایسی صورت میں سعودی اتحاد کو یمن ‘ عراق ‘ شام میں فتح کے آثار نظر آئیں گے اور ایران خود وسطی ایران میں پھنس کر رہ جائے گا ۔ پاکستان اگر اپنی افواج جنگ میں شامل نہیں کرے گا تو کم سے کم مکران کے ساحلی علاقوں کو سعودی عرب اور امریکا کے حوالے کر سکتا ہے جہاں سے اتحادی افواج ایران پر زیادہ نزدیک اور شدت سے حملے کر سکیں گے ۔ ساحل مکران میں جنگ کی صورت میں جیونی ‘ گوادر ‘ پسنی اور اورماڑہ کو زیادہ اہمیت حاصل ہوجائے گی۔پاکستان کا بڑا نیول اڈہ اورماڑہ میں ہے اور سعودی یا امریکی پاکستان سے یہ مطالبہ کر سکتے ہیں کہ ان کو اورماڑہ، گوادر اور پسنی کے اڈے استعمال کرنے کی اجازت دی جائے۔ ہمیں نہیں معلوم کہ پاکستان کا رد عمل کیا ہوگا البتہ پاکستان کی حکومت اس دباؤ میں رہے گی کہ وہ یہ تمام علاقے سعودی ‘ امریکی اتحاد کے حوالے کرے جس سے ایران کی شکست یقینی ہے ۔ اتحادیوں کی یہ کوشش ہوگی کہ ایران کو دشت لوط کے اس پار دھکیلا جائے اور مکران ساحل پر اس کا کنٹرول ختم کیا جائے۔ اگر اس جنگ میں ایران کو شکست ہوگئی یا ایران کو جنگ میں پسپا ہونا پڑا تو سعودی عرب اور امریکا دونوں پاکستان پر اس بات کے لیے دباؤ نہیں ڈالیں گے کہ پاکستان کی مسلح افواج کو ایران ‘ سعودی جنگ میں دھکیلا جائے، وہ صرف نیول امداد کی حد تک دباؤ ڈالیں گے۔ اتحادیوں کو معلوم ہے کہ پاکستان کے اندر سیکورٹی کی صورت حال زیادہ اچھی نہیں ہے ۔ مسلح افواج دہشت گردوں کا گزشتہ کئی سالوں سے مقابلہ کررہی ہیں ۔ بھارتی سرحد کے ساتھ صورت حال میں بہتری نہیں آئی ہے ۔ بھارت کی جانب سے یہ خطرہ مسلسل رہتا ہے کہ کب وہ سرجیکل اسٹرئیک کریں خصوصاً بعض گروہوں کے حوالے سے بھارت کا یہ بیان ہے کہ ان کے خلاف پاکستان کی خود کارروائی نہ کرنے کی صورت میں بھارت خود کارروائی کرے گا ایسی صورت میں اس کو پاکستان پر حملہ تصور کیاجا ئے گا۔