|

وقتِ اشاعت :   January 9 – 2016

پاک چین اقتصادی راہداری کے متعلق خیبرپختونخواہ کی جانب سے پہلے ہی خدشات سامنے آئے ہیں‘ اب بلوچستان کی سیاسی جماعتوں سمیت تاجربرادری بھی اپنے تحفظات کااظہار کررہی ہے۔ وفاقی وزیر احسن اقبال ان دنوں پاک چین اقتصادی راہداری کے حوالے سے کوئٹہ کے دورے پر آئے ہوئے ہیں۔ وفاقی وزیر احسن اقبال نے اپنے اتحادی جماعتوں،سیاسی،مذہبی اور تاجربرادری کے وفد سے طویل گفتگو کی اور اقتصادی راہداری پر ان کے خدشات کو دور کرنے کی کوشش کی اب شنید میں آرہا ہے کہ وفاقی وزیر احسن اقبال مغربی روٹ پر بعض سیاسی جماعتوں اور تاجر برادری کو مطمئن کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ احسن اقبال نے میڈیا سے گفتگو کے دوران کہا کہ سب کے خدشات و تحفظات دور کیے ہیں اقتصادی راہداری منصوبہ پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہاکہ سب سے پہلے انرجی کو ترجیحات میں شامل کرنا ہوگاجس کیلئے 17 ہزار میگا واٹ بجلی پیداکی جائے گی جو تین عرصے میں مکمل ہوگی بجلی کی پیداوار کوئلے سے کی جائے گی جبکہ بلوچستان سے ساڑھے چار ہزار میگا واٹ بجلی پیدا کی جائے گی اور گوادر،حبکو ،گڈانی میں کوئلے کے پلانٹ لگائے جائینگے جو ڈائریکٹ نیشنل گرڈ اسٹیشن میں جائینگے پھر دیگر منصوبوں پر توجہ مرکوز کرینگے۔ بہرحال بلوچستان کی سیاسی جماعتیں احسن اقبال کے دورے کے دوران ان کی باتوں سے کسی طور پر بھی مطمئن دکھائی نہیں دے رہے۔ اے این پی کے صوبائی صدر بلوچستان اصغر خان اچکزئی کا کہنا ہے کہ اقتصادی راہداری سے صرف ایک صوبے کو نوازنے کی کوشش کی جارہی ہے اگر ایسا ہوا تو 70ء جیسے حالات پیدا ہونگے جس کی ذمہ دار وفاقی حکومت ہوگی۔ اس سے قبل دیگر قوم پرست سیاسی ومذہبی جماعتوں نے بھی اپنے خدشات کا اظہار کیا ہے۔وزیراعلیٰ بلوچستان نواب ثناء اللہ خان زہری کا کہنا ہے کہ ہم نے تمام سیاسی جماعتوں کے خدشات دور کیے ہیں ۔ اقتصادی راہداری منصوبہ اس وقت ملک کا اہم ایشو بنا ہے ملک کی تمام سیاسی ،مذہبی،تاجربرادری کی توجہ اس پر مرکوز ہے جس میں بیشتر مطمئن نہیں ہیں۔ خاص کر مغربی روٹ پر زیادہ تحفظات کا اظہار کیا جارہا ہے‘ ان کا کہنا ہے کہ سینٹرل روٹ کو زیادہ ترجیح دی جارہی ہے جبکہ مغربی روٹ کویکسر نظرانداز کیاجارہا ہے یا پھر صرف طفل تسلیاں دی جارہی ہیں جو بلوچستان کے عوام کے ساتھ زیادتی ہے۔ سیاسی مبصرین کاکہنا ہے کہ وفاقی حکومت کی ذمہ داری بنتی ہے کہ اس اہم منصوبے کو متنازعہ بنانے کے بجائے تمام سیاسی ،مذہبی جماعتوں سمیت تاجربرادری کو مطمئن کرے اور مغربی روٹ پر پائی جانے والے خدشات کو دور کرنے کیلئے مغربی روٹ کو ترجیحات میں شامل کرے تاکہ کالاباغ ڈیم کی طرح یہ منصوبہ بھی متنازعہ نہ بن جائے کیونکہ اس منصوبے پر بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کی جارہی ہے جو ملک کیلئے نیک شگون ہے مگر اس پر اگر بدنیتی سے کام لیاگیا تو یہ منصوبہ بجائے فائدہ مند ہونے کے نقصان دہ ثابت ہوگا۔ اس سے قبل بھی بلوچستان کے اسمبلی فلور پر بیشتر اراکین اسمبلی جن میں خود حکومتی اراکین شامل ہیں پرکڑی تنقید کی ہے کہ احسن اقبال ایوان کو اعتماد میں لیں مگر احسن اقبال ایوان میں تو نہیں آئے اب ان دنوں اپنے دورے کے دوران نہ صرف اپنے سیاسی جماعت کے اراکین بلکہ اتحادی،اپوزیشن اور تاجربرادری سے ملاقات کررہے ہیں ۔ تاہم ابھی تک ان کے خدشات وتحفظات کو دورنہیں کیاگیا ہے جو آگے چلکر مزید اس منصوبے کیلئے پیچیدگیاں پیدا کرے گی۔ سب سے بڑی ذمہ داری وزیراعظم میاں محمد نواز شریف کی بنتی ہے کہ وہ بلوچستان جو پہلے سے سب سے پسماندہ صوبہ ہے اس کی ترقی کیلئے ذاتی دلچسپی لیکر یہاں کی محرومیوں کو دور کرنے کیلئے اپنا بھرپور کردار ادا کریں تاکہ ماضی کی غلطیوں کے ازالے کے ساتھ ساتھ بلوچستان دیگر صوبوں کی طرح ترقی کی دوڑ میں شامل ہوسکے وگرنہ ماضی کے حکمرانوں کی طرح اس حکومت کو بھی اچھے لفظوں میں یاد نہیں کیاجائے گا۔