|

وقتِ اشاعت :   January 9 – 2016

کوئٹہ :  بلوچستان کی اپوزیشن جماعتوں نے چائنا پاکستان اقتصادی راہداری منصوبے پر اپنے خدشات اور تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ احسن اقبال کی زیر صدارت ہونے والی میٹنگوں اور پروگراموں سے انکے تحفظات ختم نہیں ہوئے بلکہ خدشات میں مزید اضافہ ہوا ہے۔ کوئٹہ پریس کلب میں مشترکہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے جمیعت علماء اسلام کے رہنماء اور اپوزیشن لیڈر صوبائی اسمبلی مولانا عبدالواسع نے کہا کہ نواز شریف کے دورہ ژوب کے موقع پر تمام سیاسی جماعتوں نے یکجہتی کا مظاہرہ کرتے ہوئے چائنا پاکستان اقتصادی راہداری کو پایہ تکمیل تک پہنچانے پر اتفاق کیا ہے لیکن احسن اقبال کی باتوں سے یہ لگ رہا ہے کہ وہ اس معاملے کو سلجھانے کے بجائے الجھانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے APCااور دیگر فورم پر دو ٹوک الفاظ میں اپنا مؤقف پیش کیا ہے کہ CPECمیں سب سے زیادہ حق بلوچستان رکھتا ہے لیکن ہمیں ٹیکنکل معاملات میں الجھانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہمارا مطالبہ ہے کہ مئی میں ہونے والے معاہدے پر عملدرآمد کرایا جائے اور تمام مسائل کو مشترکہ کونسل کے سامنے لائی جائے۔عوامی نیشنل پارٹی کے صوبائی صدر اصغر اچکزئی نے کہا کہ اقتصادی راہداری کو بلوچستان نہیں بلکہ پنجاب کی جانب سے متنازعہ بنایا جا رہا ہے۔ تمام صوبے اس بات پر اتفاق کر رہے ہیں کہ مغربی روٹ کو ترجیحی بنیاد پر بنایا جائے لیکن پنجاب بضد ہے۔ انہوں نے کہا کہ 1970کی تاریخ کو دوبارہ دہرانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کی اسٹریٹجک اہمیت بلوچستان کی وجہ سے ہے اور گوادر اسی صوبے کا حصہ ہے لیکن یہاں کے نمائندوں سے پوچھے بغیر فیصلے کئے جاتے ہیں جس سے خدشات اور تحفظات نہیں ہوں گے تو کیا ہوں گے۔ انہوں نے کہا بلوچستان پہلے سے جل رہا ہے اور اس آگ کو مزید ہوا دینے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اکنامک کوریڈور کے ذریعے ایک ہی صوبے کی ترقی اور خوشحالی کے لئے اقدامات اٹھائے جا رہے ہیں جو یقیناًآگے چل کر مسائل پیدا کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں دوسروں کی ترقی پر کوئی اعتراض نہیں لیکن اس آڑ میں پسماندہ صوبوں کو نظرانداز نہ کیا جائے ۔زمرک اچکزئی نے کہا کہ گزشتہ ڈھائی سالہ دور حکومت میں بلوچستان کے کسی بھی مسئلے پر اپوزیشن جماعتوں کو رائے میں نہیں لیا گیا ۔ البتہ سردار ثناء اللہ زہری نے چند دنوں کے اندر اپوزیشن کو رائے میں لینے کی کوشش کی ہے جو خوش آئند بات ہے۔ انہوں نے کہا پنجاب بڑے بھائی کا رول ادا کرے اور اسے چھوٹے صوبوں سے شفقت سے پیش آنے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ مغربی روٹ کا اعلان تو کیا گیا ہے لیکن تاحال نہ اسے کوئی ڈیزائن دے دیا گیا ہے اور نہ ہی حتمی شکل۔انہوں نے کہا کہ بلوچستان کے اہم ایشوز پر حکومتی اور اپوزیشن جماعتیں مشترکہ جدوجہد کریں گے اگر موجودہ صوبائی حکومت کا رویہ سابقہ حکومت کی طرح رہا تو ہم وہی ڈھائی سالہ اپنا کردار ادا کرتے رہیں گے۔حافظ حمد اللہ نے کہا کہ ہم نے چین پاکستانی دوستی کا مثال تو دے دیتے ہیں لیکن ہم نے چین سے کچھ نہیں سیکھا۔ پاکستان کی معیشت بنگلہ دیش، مالدیپ کی معیشت سے کمزور ہے۔انہوں نے کہا کہ ابھی چین جن راستوں سے اس کوریڈور کو لے جارہا ہے وہ علاقے پسماندہ ہیں جہاں اسلامک مومنٹ بھی چل رہی ہے لیکن وہ اس مومنٹ کو بزور طاقت نہیں بلکہ وہاں کی پسماندگی کو دور کرکے ہی ختم کر رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ بلوچستان کو معاشی حوالے سے مضبوط بنایا جائے نہ کہ لوگوں کو موقع فراہم کیا جائے کہ وہ پہاڑوں کا رخ کریں۔ ان اقدامات سے لگتا ہے کہ ہمارا نسخہ علاج غلط ہے۔انہوں نے کہا کہ اٹھارویں ترمیم کے تحت صوبائی وسائل کے مالک صوبے ہوں گے۔ لیکن بلوچستان کو آج تک اختیارات نہیں دیئے گئے ہیں۔پاکستان چائنا اقتصادی راہداری کے حوالے سے تمام سیاسی جماعتوں کے تحفظات ہیں لیکن ان تحفظات کو دور کرنے کی کوشش نہیں کی جا رہی ہے۔ جو مستقبل میں ایک بڑے خطرات کے پیش خیمہ ثابت ہو سکتے ہیں۔