|

وقتِ اشاعت :   January 10 – 2016

غیرملکی خبررساں ادارے کے مطابق پاکستان کے صوبہ پنجاب کے محکمہ داخلہ کو ایک دستاویز موصول ہوئی ہے جس میں انکشاف کیا گیا ہے کہ افغانستان میں اپنی پوزیشن مضبوط کرنے کے بعد اب شدت پسند تنظیم دولتِ اسلامیہ پاکستان میں بھی قدم جمانے کے لیے کوشاں ہے۔تاہم پنجاب کے وزیرقانون رانا ثنا اللہ کا کہنا ہے کہ انٹیلیجنس پر مبنی اس طرح کے مراسلے اکثر جاری ہوتے رہتے ہیں جنھیں نہ تو مسترد کیا جاسکتا ہے اور نہ ہی انھیں سو فیصد درست تصور کیا جا سکتا ہے۔محکمہ داخلہ کا یہ مراسلہ چیف سیکریٹری پنجاب، پولیس کے اعلیٰ حکام اور وزیراعلیٰ کے سیکریٹری کو بھجوایا جا چکا ہے جس کے مطابق دولتِ اسلامیہ نے پاکستان میں بھرتیوں کا سلسلہ شروع کر دیا ہے۔ خاص طور پر قبائلی علاقوں میں موجود پناہ گزین کیمپوں میں مقیم لوگوں کو 30 سے 50 ہزار روپے ماہانہ تنخواہ پر بھرتی کرنے کے بعد ان لوگوں کو افغانستان بھیجا جاتا ہے جہاں انھیں برین واش کرنے کے ساتھ ساتھ جدید اسلحہ اور دھماکہ خیز مواد استعمال کرنے کی تربیت بھی دی جاتی ہے۔بھرتی ہونے والے افراد کی تربیت کے لیے دولتِ اسلامیہ نے پروپیگنڈہ پر مبنی لٹریچر اور ویڈیو سی ڈیز بھی جاری کی ہیں تاکہ پاکستان سے زیادہ سے زیادہ نوجوانوں کو اس تنظیم میں شامل کیا جا سکے۔مراسلے میں بتایا گیا ہے کہ اب تک دولتِ اسلامیہ پاکستان میں ایسی 53 سی ڈیز جاری کر چکی ہے جو عربی زبان میں ہیں۔ان میں پیرس میں ہونے والے حملوں کی فوٹیج دیکھی جا سکتی ہے جس میں یہ پروپیگنڈہ کیا جا رہا ہے کہ ایسے حملے مسیحیوں کے خلاف صلیبی جنگوں کا آغاز ہیں۔غیر ملکی خبررساں کے مطابق افغان پناہ گزین کیمپ شمشتو سے 40 سے 50 نوجوان افغانستان میں دولتِ اسلامیہ کے کیمپوں میں تربیت حاصل کر رہے ہیں۔ان ویڈیوز میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ اگر جنگجو مارا جائے تو ان کے خاندانوں کی کفالت کی جائے گی۔ ان سی ڈیز میں جنگجوؤں کو حملوں کی تیاریاں کرتے ہوئے بھی دیکھا جا سکتا ہے۔اطلاعات کے مطابق متعدد شدت پسند گروپ جیسے اسلامک موومنٹ ازبکستان، ترکستان اسلامک موومنٹ، افغانستان میں موجود ازبک اور چیچن ملیشیا، احرارالہند، جماعت الاحرار اور لشکرِ جھنگوی وغیرہ بھی دولتِ اسلامیہ کا حصہ بننے جا رہے ہیں۔اسی طرح اماراتِ اسلامیہ افغان طالبان کے کمانڈر مولانا عبدالرؤف بھی دولتِ اسلامیہ میں شامل ہو گئے ہیں اور دولتِ اسلامیہ کے تربیتی سرگرمیوں کے لیے مالی مدد بھی کر رہے ہیں۔دوسری جانب سیاسی مبصرین اس پر تبصرہ بھی کرچکے ہیں کہ دولت اسلامیہ پاکستان میں اپنے قدم جمانے کی بھرپور کوشش کرے گی جس کی تدارک کیلئے ریاستی اداروں کو متحرک ہوناپڑے گا۔ آج بھی پاکستان میں افغان مہاجرین کی بڑی تعداد موجود ہے خاص کر بلوچستان میں اُن کی تعداد لاکھوں میں بتائی جاتی ہے‘ سیکیورٹی فورسز کے آپریشن کے دوران بیشتر ہلاک شدگان دہشت گرد غیرملکی باشندے تھے جن میں افغان باشندے بھی شامل ہیں‘ ایک طرف دہشت گردوں کے خلاف ضرب آپریشن جاری ہے جس پر عسکری قیادت مطمئن دکھائی دیتی ہے مگر اس پہلو کو ہرگز نظرانداز نہیں کیاجاناچاہیے کہ ملک میں موجود افغان مہاجرین میں چند ایسے عناصر بھی شامل ہیں جو دہشت گردوں کے سہولت کار اور خود برائے راست دہشت گردی میں ملوث رہے ہیں‘ اگر مہاجرین پر کڑی نظر نہ رکھی گئی تو شدت پسندتنظیم دولت اسلامیہ میں شامل ہوسکتے ہیں جس پر غور وخوص کرنے کی ضرورت ہے۔ سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ حکومت پر سب سے بڑی ذمہ داری عائدہوتی ہے کہ وہ مہاجرین کی نقل وحرکت کومحدود کرنے کیلئے مؤثر قانون سازی کرے اور جو غیر قانونی تارکین وطن ہیں اُن کی واپسی کیلئے ہنگامی بنیادوں پر اقدامات اٹھائے تاکہ شدت پسندوں سے بروقت نمٹا جاسکے۔ اس سے قبل یہ اعلان کیا گیا تھا کہ دسمبر 2015ء سے تارکین وطن کو ان کے وطن بحفاظت واپس بھیجاجائے گا مگر فی الحال اس پر عملدرآمد نہیں ہورہا‘ سابق وزیراعلیٰ بلوچستان ڈاکٹرعبدالمالک نے میڈیا سے گفتگو کے دوران صحافیوں کے سوال کے جواب میں کہاتھاکہ وفاق کو بلوچستان حکومت کی جانب سے افغان مہاجرین کی واپسی کیلئے خط بھیجا گیا ہے اور ہم اُن کی جلد وطن واپسی چاہتے ہیں بہرحال اس خط کا جواب کیاملایہ اب تک میڈیا میں نہیں آیا ہے۔ بہرحال ملک کو بڑی دہشت گردی سے بچانے کیلئے ان عوامل کو زیر غور لانا ضروری ہے وگرنہ ملکی صورتحال میں جو بہتری آئی ہے وہ ضائع جائے گا جو ملک سمیت خطے کی صورتحال پر اثرانداز ہوگا ۔دولت اسلامیہ کے خلاف اس وقت بعض ممالک جنگ کررہے ہیں اس لیے ضروری ہے کہ دولت اسلامیہ کی پاکستان میں قدم جمانے کی کوشش کو ناکام بنانے کیلئے تمام اداروں کو متحرک ہوکر اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔