کوئٹہ: پاک چین اقتصادی راہداری کو متنازعہ بنانے کی باتیں‘70ء کی دہائی پر حالات کو دھکیلنا‘چھوٹے صوبوں کے ساتھ زیادتی‘ مغربی روٹ پر کام جلد شروع کرنا‘اقتصادی راہداری کو کالاباغ ڈیم کی طرح متنازعہ نہ بنانا‘ یہ وہ باتیں ہیں جو آج خاص کر پشتون سیاسی ومذہبی لیڈران کررہے ہیں‘ پاک چین اقتصادی راہداری پر بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کی وجہ صرف گوادر کی سرزمین ہے‘ جو آج پانی سے بھی محروم ہے‘ مگر کسی بھی پشتون لیڈر نے یہ لب کشائی تک نہیں کی کہ گوادر میں سب سے پہلے پانی کا مسئلہ حل کیاجائے‘ مغربی روٹ ہو یا دیگر اقتصادی راہداری کے معاملات پر وارث سرزمین کے تمام خدشات وتحفظات کو بھی دور کرنا ضروری ہے ‘ افسوس کا مقام ہے کہ مغربی روٹ پر اتنا واویلا مچانے والوں نے پچھلے کئی دہائیوں سے بلوچستان میں موجود اہم سیاسی ایشو کوکسی بھی فورم پر اٹھانے کی زحمت تک نہیں کی ‘ بلوچستان جلتا رہا ‘بلوچ علاقے تباہی کے دہانے تک پہنچ گئے‘ بلوچ حلقے ہر سطح پر سراپا احتجاج رہے‘ مگراس دوران پشتون لیڈران خاموش تماشائی کا کردار ادا کررہے تھے اور اب بھی گوادر کی مثال ہمارے سامنے ہے‘ پشتون لیڈروں کیلئے بلوچوں کے مسائل شاید کوئی اہمیت نہیں رکھتے البتہ وسائل ضرور‘ بلوچ قوم پرست وسائل کے اختیار کیلئے عرصہ دراز سے جدوجہد کررہے ہیں ‘ اس دوران بلوچستان کے حالات کس نہج تک پہنچیں مگر ہمارے پشتون بھائیوں کی جانب سے کسی طرح کا مؤثر احتجاج سامنے نہیں آیا‘ یہ ضرور دیکھنے کو ملا کہ جب افغان مہاجرین کا مسئلہ سر اٹھاتا ہے تو ہمارے پشتون بھائی خاص کر پشتونخواہ میپ اس مسئلے پر سب سے آگے دکھائی دیتی ہے اور ہر فورم پراُن کیلئے آواز اٹھاتی ہے‘ حال ہی میں کوئٹہ سائنس کالج کے جلسے کے دوران محمود خان اچکزئی نے پشتونوں کے اتحاد کیلئے مولوی حضرات کو ساتھ ملکر چلنے کی دعوت دی اورایک بار پھرجنوبی پشتونستان کا نعرہ بھی لگایا‘ محمود خان اچکزئی بلوچستان کے بزرگ لیڈروں میں شمار ہوتے ہیں اور اس میں کوئی شک نہیں کہ اُن کی سیاسی قدبھی بہت بڑی اہمیت رکھتا ہے‘ ایک سوال ذہن میں بار بار اٹھتا ہے کہ محمود خان اچکزئی کی جماعت جنوبی پشتونستان کا نعرہ لگاتی ہے پھر کیوں ان ڈھائی سالہ دور حکومت میں انہوں نے بلوچستان اسمبلی میں جنوبی پشتونستان کے حوالے سے کوئی بل پیش نہیں کیا‘ اگر محمود خان اچکزئی اپنی جماعت کے تمام دوستوں کے ساتھ مشاورت کریں اور متفقہ فیصلے کے بعدمؤقف کو سامنے لائے کہ اسمبلی میں جنوبی پشتونستان کیلئے بل لارہے ہیں اور ہم اپنی وحدت کو الگ کرنا چاہتے ہیں اگر اُن کی جماعت کی اکثریت اس بات پر متفق نہیں بھی ہوگی تو برائے کرام اس کا بھی فی الفور اپنی جماعت کی جانب سے واضح مؤقف کو سامنے لائے تاکہ پشتونخواہ کا جوجنوبی پشتونستان کا نعرہ ہے وہ واضح ہوسکے ‘ مگر مجھے نہیں لگتا کہ ایساہوگا‘ بہرحال وجوہات بہت ساری ہیں ‘باچاخان سمیت اُس وقت کے پشتون لیڈران کی بات یہاں زیر غور نہیں کیونکہ اُن کی سیاست کم ازکم موجودہ پشتون قوم پرستوں کے مؤقف کی نسبت واضح تھی‘موجودہ پشتون قوم پرستوں کے سیاست میں بہت سارے تضادات موجود ہیں‘ بلوچستان میں جب بھی قومی حقوق کیلئے آواز اٹھائی گئی تو بلوچ لیڈران سمیت عام ورکرز نے جیل کی صعوبتیں کاٹی اور اس کے آگے جو کچھ ہوا اسے بیان کرنے کی ضرورت بھی نہیں کیونکہ حقائق سے ہر ذی شعور واقفیت رکھتا ہے‘ اب مسئلہ یہ ہے کہ وسائل بلوچ کے اور بھائی وار پشتون بھی؟ میں اس بات پر بالکل متفق بھی ہوجاتا ہوں کہ سرزمین بلوچ سے نکلنے والے وسائل پر یہاں کے عوام کا سب سے پہلے حق ہے مگر کیا اُن لوگوں کا حق صرف تسلیم کیا جائے جو صرف وسائل کیلئے برادر اقوام بنتی ہے اور جب کڑا وقت آتا ہے تو بھائی واری ختم!یہاں میں نے پونم کا ذکر اِس لیے نہیں کیا کیونکہ وہ ایک ایسا اتحاد تھا جس کا وژن کسی طور پر بھی واضح نہیں تھاایک لولی لنگری اتحاد تھی‘ نیپ کی مثال آج بھی تاریخ کے اوراق پر ملتی ہے‘ بہرحال پشتون لیڈران بلوچوں کے مسائل اور اُن پر بیتے گئے مظالم پر بھی تھوڑا بہت شورشرابہ کیا کریں جس طرح وہ افغان مہاجرین کے مسائل پر کرتے ہیں تاکہ بلوچ قوم کے ساتھ بھائی واری کی تھوڑی گنجائش پیدا ہوجائے‘اقتصادی راہداری کامسئلہ اتنا سیدھا نہیں کہ صرف مغربی روٹ تک ہی اکتفا کیا جاسکے‘ میرے نزدیک مغربی روٹ جزوی معاملہ ہے‘ سب سے زیادہ پاک چین اقتصادی راہداری پر بلوچ قوم کے وسیع پیمانے پر خدشات موجود ہیں ‘اس سے قبل بھی بلوچوں نے اپنے وسائل کے دفاع کیلئے ہر وہ ممکن کوشش کی جس کی وجہ سے انہیں بہت سے دکھ جھیلنے پڑیں جنہیں دو لفظوں میں شاید بیان نہیں کیا جاسکتا!بلوچ وسائل پر پشتونوں کا حق اور برادر اقوام کی باتیں صرف لفاظی نہیں بلکہ عملی طور پر ہونے چاہیے جس کے دور تک آثار دکھائی نہیں دے رہے۔