بلوچستان نیشنل پارٹی کی جانب سے ایک روزہ آل پارٹیز کانفرنس منعقد کی گئی جس میں یہ قرار داد متفقہ طورپر منظور کی گئی کہ گوادر بندر گاہ اور اس سے متعلقہ تمام معاشی ‘ تجارتی اور صنعتی منصوبوں کا کنٹرول صوبائی حکومت کے حوالے کیاجائے اور اس کے لئے آئین اور قوانین میں مناسب ترامیم کی جائیں ۔ اس کے علاوہ اے پی سی نے متفقہ قرار داد میں یہ بھی مطالبہ کیا کہ باہر سے آنے والے لوگوں کو گوادر میں ووٹ کا حق نہ دیا جائے نہ ہی ان کو گوادر سے شناختی کارڈ اور پاسپورٹ جاری کیا جائے۔ سب سے اہم ترین بات جو قرارداد میں کہی گئی اور جس کو منظور کیا گیاوہ یہ تھی کہ بلوچستان کے ساحل و وسائل کا مکمل کنٹرول بلوچستان کو دیا جائے ۔ ساتھ ہی اس بات کا بھی مطالبہ کیا گیا کہ چین پاکستان راہداری کے لئے مغربی روٹ کو اپنایاجائے جس کا فیصلہ وزیراعظم پاکستان نے اے پی سی کے 28مئی کے اجلاس میں کیا تھا لہذا اس پر عمل کیا جائے۔ بی این پی کی جانب سے اے پی سی کے انعقاد کا مقصد پورے ملک کے عوام اور خصوصاً سیاسی پارٹیوں کے رہنماؤں کو ان خطرات کی نشاندہی کرانا تھا کہ بلوچستان میں بلوچوں کو اپنے ہی سرزمین پر اقلیت میں تبدیل کرنے کی کوشش اور سازش کی جارہی ہے جس کے سدباب کے لئے ضروری ہے کہ باہر سے آنے ولے تمام لوگوں پر چند پابندیاں لگا ئیں جائیں جس میں باہر سے آنے والوں کو ووٹ کا حق گوادر ضلع میں نہ دینا ، ان کو ووٹر کی حیثیت سے رجسٹر نہ کرنا، ان کو پاسپورٹ اور شناختی کاڑد گوادر سے جاری نہ کرنا شامل ہیں ۔ ساتھ ہی یہ مطالبہ بھی کیا گیا ہے کہ گوادر کے باشندوں کو اولیت کی بنیاد پر روزگار فراہم کیاجائے خصوصاً گوادر اور مکران ڈویژن کے لوگوں تک یہ ملازمتیں محدود رکھی جائیں ۔ حالیہ دنوں میں حکومت گوادر کے لیے سیکورٹی فورس بنا رہی ہے یوں اس میں مقامی لوگوں کو بھرتی کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے تاکہ وہ اپنے عزت و نفس اور اپنے ساحل اور وسائل کا دفاع خود کریں ۔ اس قرار داد میں اس بات کی مخالفت کی گئی ہے کہ سیکورٹی فورس میں دوسرے صوبوں کے لوگوں کو بھرتی کیاجائے۔ حالیہ دنوں میں سیکورٹی ادارہ نے مقامی آبادی کے لئے نیا سیکورٹی کارڈ جاری کیا ہے اگر کسی نے یہ کارڈ نہیں بنایا اور وہ گو ادر سے باہر گیا تو دوبارہ اس کو گوادر میں داخل نہیں ہونے دیا جائے گا، اس عمل کی شدید ترین الفاظ میں مذمت کی گئی اور اے پی سی کے اکثر مقررین نے اپنی تقاریر میں اس کارڈ کو واپس لینے کا مطالبہ کیا ۔بلوچ رہنما یوسف مستی خان نے کہا کہ حکومت اس وسیع اور عریض ساحل مکران پر گوادر کو ایک محصور شہر Walled Cityبنانا چاہتی ہے ، یہ وسیع تر ساحل مکران کا حصہ ہے اور اس کو ساحل مکران کا حصہ رہنا دیا جائے ۔ دوسرے الفاظ میں گوادر کو ایک محصور شہر اور بندر گاہ نہ بنایا جائے ۔ ساتھ ہی یہ بھی مطالبہ کیا گیا کہ گوادر میں مچھلی بندر تعمیر کیاجائے، اس کے لئے جیٹی فوری طورپر تعمیر کی جائے ۔ مقامی ماہی گیروں کو دور دراز علاقوں میں بے دخل نہ کیاجائے ،ترقی کے نام پر پرانے شہر کو مسمار نہ کیاجائے ۔ بعض مقررین نے گوادر کا موازنہ چاہ بہار کی بندر گاہ سے کیا جہاں پر مقامی لوگ دنیا بھر سے پچاس ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کا خود تحفظ کررہے ہیں ۔ چاہ بہار جو گوادر سے صرف 72کلو میٹر کے فاصلے پر ہے وہاں صرف ایک شہر میں اتنی بڑی سرمایہ کاری ہورہی ہے مگر وہاں پر نہ تو ایران کی فوج نظر آتی ہے نہ ہی مسلح پولیس کے دستے ۔ عوام اپنے مفادات کا خود تحفظ کرتے نظر آتے ہیں ۔ گوادر کے عوام پر اعتماد کیا جائے توو ہ بھی اپنی سرزمین، اپنے اثاثوں کا خود تحفظ بہتر طورپر کریں گے۔