|

وقتِ اشاعت :   January 12 – 2016

ویسے تواہل بلوچستان کی روایت ہے کہ خواتین کو گھر سے باہر نکلنے کی اجازت نہیں لیکن جب گھر میں نوبت فاقے تک آجائے تو خواتین کو گھر چلانے کے لئے گھر سے باہر کا راستہ دیکھنا ہی پڑتا ہے سارا دن کام کے عیوض وہ دو وقت کی روٹی کا انتظام کرکے گھر آجاتی ہیں ۔ بلوچستانی معاشرے میں حصول روزگار کے لئے خواتین کووہ اہمیت نہیں دی جاتی جو مرد کو حاصل ہے یہی وجہ ہے کہ بلوچستان کے بیشتر اداروں میں مردوں کو فوقیتحاصل ہے اور خواتین کی ضرورت محسو س نہیں کی جاتی۔ یہی سوال جب میں نے اپنے ایک دوست (جو کہ کافی عرصے سے این جی اوز کے ساتھ منسلک ہیں) سے پوچھاکہ خواتین پر ہونے والی پروگراموں میں مرد ہی شرکت کرتے ہیں اگر اکا دکا عورتیں نظر آجاتی ہیں تو بھی انہیں بولنے کا موقع نہیں دیا جاتا یا تو وہ اس قدر دباؤ محسوس کرتی ہیں کہ انہیں بولتے ہوئے خوف محسوس ہوتی ہے تو انکا کہنا تھا کہ خواتین وہ صلاحیت نہیں رکھتیں جب کہ ایک مرد بہتر انداز میں بات کرسکتا ہے اور اپنا مؤقف پیش کر سکتا ہے۔ یقیناًاس دوست کے نزدیک یہ منطق اپنی حد تک درست ہے لیکن حقیقت بھی یہی ہے کہ خواتین کو آج بھی اس تعلیم کی ضرورت ہے جو اسے مل نہیں پاتی یہی وجہ ہے کہ ہمارا معاشرہ ترقی نہیں کرپاتا ۔ غور طلب بات یہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں خواتین کی تعلیم اور شعور پر قدغن لگانے والی قوتیں اس بات پر بضد بھی ہو جاتی ہیں کہ خواتین کما کر بھی لائے جو کہ خواتین کو بھیک مانگنے پر مجبور کر دیتی ہے۔ بھیک مانگنے کے بے شمار ذرائع ہیں ایک تو یہ کہ اکثر و بیشتر ہم ہوٹلوں اور بازاروں میں خواتین کو بھیک مانگتے ہوئے دیکھتے ہیں تو ہمارا ضمیر وقتی طور پر جاگ جاتا ہے کہ اس معاشرے کا خاتون آخر بھکاری بنا کیسے لیکن پھر ہم اپنے اندر جھانک کر اسکی وجوہات جاننے کی کوشش کرتے ہیں تو اسکا جواب ہمیں اپنے آپ کو مؤرد الزام ٹھہراتے ہوئے ملے گا کہ خواتین کو جس شعور اور تعلیم کی ضرورت ہے پھر ہم اسکی اس لاشعوری کو اسی طرح زیر استعمال لانے کی کوشش کرتے ہیں جسکا سبب یہ ہوتا ہے کہ بازاروں میں وہ غیر محرم کے سامنے تو گھر میں محرم کے سامنے ہاتھ پھیلاتا ہوا نظر آتا ہے۔ ہمارے معاشرے میں خواتین کو ذلیل و خوار کرنے کے فقط ذرائع ہی ڈھونڈے گئے لیکن خواتین کو آگے جانے کے راستے نہیں دیئے گئے بلکہ زمینی فرشتوں نے یہ محسوس کیا کہ بھلا اگر خواتین آگے جائیں گی تو مرد کو گھر کے کام کرنے پڑیں گے۔ تو اسے گھر کی زیب و زینت بنا کر اسے معاشرے کا حصہ بننے سے روک دیا گیا۔ لیکن جہاں پیسے اور مفادات کی بات آگئی تو خواتین پر سے قدغن ہٹا دی گئی۔ مجھے یاد ہے پہلے پہل تو بیت المال کے نام پر خواتین چند سو روپے کی خاطر پوسٹ آفسوں کے چکر کاٹنے پر مجبور تھے تو کہیں بنکوں کے۔ اور اب یہ سلسلہ بیت المال سے نکل کر بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کی صورت میں سامنے ہے اس پروگرام کے ذریعے سے یہاں کے معاشرے کے خواتین کو بھکاری بنانے کی حتی الامکان کوشش کی جا رہی ہے بھلا 1500روپے کس غریب خاتون کی ماہانہ امداد اور کفالت کے لئے کافی ہوں گے لیکن اسکے عیوض جو تکلیف اور پریشانی کا سامنا ان لاچار اور غریب خواتین کو کرنا پڑتی ہے وہ انتہائی غور طلب ہے۔ گزشتہ روز کی بات ہے کہ بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کے چےئرپرسن محترمہ ماروی میمن صاحبہ ایک مصنوعی تقریب کی رونمائی کے لئے یہاں کوئٹہ تشریف لا رہی تھیں تو بلوچستان کی خواتین جو دور دراز علاقوں سے کوئٹہ کا رخ کرکے اس تقریب کے پنڈال میں صبح 9بجے سے شام 4بجے تک انتظار کرتی رہیں اس امید پر کہ محترمہ ماروی میمن انکے لئے ایک پیکج کا اعلان کریں گی اور ان میں رقوم کی تقسیم کریں گی۔ کتنے سادہ لوح ہیں یہاں کی لاچار عورتیں ۔ جنکی سادگی کا اتنا فائدہ اور انہیں 7گھنٹے کی انتظار کی صورت میں کرنا پڑتا ہے۔ نہ جانے اس روز کتنے گھروں میں چولہے نہیں جلے ہوں گے۔ اسلئے کہ ماروی میمن انکے لئے کچھ اعلان کریں گی لیکن وہی ہوا جسکی امید کی جا رہی تھی۔ محترمہ ماروی میمن کوئٹہ تشریف لائیں انتظار کی گھڑیاں ختم ہوئیں سب عورتیں دل تھام کر انکے زبان سے بہت سی انعامات و اکرامات کے اعلانات سننے بیٹھ گئیں لیکن سب بے سود نہ ماروی میمن انہیں کچھ دے سکی اور نہ ہی انکی امیدیں بھر آئیں جب پیاسے ہونٹ اور خشک گلے کے ساتھ وہ اپنے گھروں کی طرف واپس روانہ ہو گئیں۔ بلوچستان کے خواتین کو تعلیم کی ضرورت ہے انکے لئے تعلیمی اداروں کا بندوبست اور انہیں ہنر مند بنانے کی ضرورت ہے تاکہ وہ اپنے معاشی حالات کو بہتر بنانے کی خود ضامن ہوں۔ ماروی میمن اور انکے ہمراہ موجود اسپیکر بلوچستان محترمہ راحیلہ درانی کو بھی بخوبی اس بات کا احساس ہونا چاہئے کہ 1500روپے کسی بھی گھر کو خوشحال بنانے کی ضمانت نہیں دے سکتے اگر دے سکتا ہے تو وہ ہے اس قوم کی عورتوں کو تعلیم دینے کی ۔ اگر یہی رقم اس قوم کی عورتوں کو لائنوں میں بٹھانے کے بجائے انکی تعلیم اور صحت پر صحیح معنوں میں خرچ کی جائیں انکی فلاح و بہبود کے لئے خرچ کی جائیں انہیں ہنرمند بنانے کے لئے استعمال میں لائی جائیں تو یقیناًعورتوں کی حالات زندگی میں ایک بڑی تبدیلی آسکتی ہے نہ کہ چند باتیں سنانے کے لئے انہیں سات سات گھنٹے اپنے انتظار میں بٹھا کر انکے احساسات سے کھیلنے کا ڈرامہ رچایا جائے۔ کیونکہ آج ماروی میمن اور راحیلہ درانی جس اسٹیج پر کھڑی ہیں وہ ہے اس تعلیم کی برکت سے جس تعلیم نے انکی سوچ میں تبدیلی لائی ۔ یہ خواتین اس دھرتی کے ہیں انکے ساتھ اس دھرتی کی مٹی کے حساب سے پیش آنے کی ضرورت ہے ۔ اس معاشرے میں تبدیلی لانا ہے تو اس معاشرے کی خواتین کو علم کی زیور سے آراستہ کرنا ہے۔ یہ خواتین آگے آئیں گی علم کا روشن سورج ضرور طلوع ہوگا۔ اور اس معاشرے میں بھکاری پن کی لعنت کو دفنانے میں مدد ملے گی۔