گزشتہ دنوں اسلام آباد میں آل پارٹیز کانفرنس منعقد ہوئی جس میں کلیدی فیصلے کئے گئے اور بلوچستان کے اس قومی حق کو تسلیم کیا گیا کہ ساحل ووسائل پر بلوچوں کا قانونی حق ہے۔ اب ان حقوق کی فوری حصول کے لئے جلد سے جلد قانون سازی کی جائے تاکہ پورے خطے میں ترقی کا عمل تیز تر ہو اور بلوچ قوم اس میں اپنا بھرپور کردار ادا کرے۔ کانفرنس میں اس حق کو تسلیم کرنے کے ساتھ ساتھ یہ بھی مطالبہ کیا گیا کہ اس پر قانون سازی کی جائے ،آئین میں مناسب ترامیم کی جائیں تاکہ ساحل اور وسائل پر بلوچوں کے حق کو قانونی حیثیت دی جائے۔ ایسی صورت میں وفاق سے یہ مطالبہ کیاگیا ہے کہ گوادر پورٹ اور اس سے متعلقہ تمام منصوبوں کو حکومت بلوچستان کے حوالے کیا جائے۔ بلوچستان میں بھی غیروں کی حکومت نہیں ہے مسلم لیگ ن کے نامور قبائلی رہنما نواب ثناء اللہ زہری صوبے کے وزیر اعلیٰ اور اعلیٰ ترین منتظم بھی ہیں لہٰذا ان کی موجودگی میں شکوک اور شبہات کی کوئی گنجائش نہیں۔ ان کی حب الوطنی مثالی ہے اور وہ حکمران مسلم لیگ کے اہم ترین رہنماؤں میں شامل ہیں۔ لہٰذا حکومت کو چاہئے کہ وہ قومی اسمبلی میں ایک آئینی ترمیمی بل پیش کرے جس کے ذریعے آل پارٹیز کانفرنس کے فیصلوں پر عمل درآمد ہو بلکہ جلد سے جلد عمل درآمد ہوتاکہ بلوچستان کا دیرینہ بلوچ تنازعہ مسلم لیگ کی موجودہ دور حکومت میں حل ہوجائے اور اس کا سہرا بھی میاں نواز شریف اور اس کی وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو ملے۔ آئین میں ایسی ترامیم کیں جائیں جس کے ذریعے بندرگاہیں ، جہاز رانی ، معدنیات اور قدرتی دولت کو صوبوں کی تحویل میں دیا جائے۔ بلوچ اکابرین کو شدید خطرات لاحق ہیں کہ چند ملین آبادی والے بلوچستان میں آبادی کا تناسب بہت جلد تبدیل ہوسکتا ہے۔ اس کے لئے ایک گوادر پورٹ جیسا میگا پروجیکٹ کافی ہے۔ ہمارے سامنے کراچی کی مثال موجود ہے کہ بھارت، افغانستان، برما اور دنیا بھر سے دو کروڑ غیر قانونی تارکین وطن کو کراچی لاکر آباد کیا گیا اور اب یہ مطالبہ کیا جارہا ہے کہ سندھ کا وزیر اعلیٰ سندھی نہ ہو، باہر سے آنے والا ہو بلکہ غیر ملکی تارکین وطن سندھ کی حکومت بنائیں۔ ایسی صورت میں پاکستان کو شدید ترین خطرات لاحق ہوں گے اگر گوادر میں بھی اسی قسم کی کوششیں کی گئیں اور آبادی کے تناسب کو تبدیل کرنے کی کوشش کی گئی۔ اسی بات کو پیش نظر رکھتے ہوئے ملک کی تمام بڑی اور چھوٹی پارٹیوں نے بلوچوں کے اس حق کو تسلیم کیا کہ ان کے وسائل پر انہی کا کنٹرول ہونا چاہئے تاکہ فیڈریشن کو مضبوط تر بنایا جائے۔ اسی طرح کراچی اور پورٹ قاسم پر بھی سندھ کی حکومت کا حق تسلیم کیا جائے تاکہ دونوں صوبے ملک کو زیادہ طاقتور اور مستحکم بنانے میں معاون ثابت ہوں۔ بلوچستان میں موجودہ حالات کا فائدہ ملک کو نہیں پہنچا، حکمرانوں نے اس کا حل تلاش نہیں کیا، اس کا جلد سے جلد حل تلاش کیا جائے اس کے لیے اے پی سی کے فیصلوں پر عمل کرکے بلوچستان کے معاملات کو معمول پر لایا جاسکتا ہے۔ بلکہ سیاسی اکابرین کو مسئلہ حل کرنے کے لئے راضی کیا جائے تاکہ وہ اپنا کردار ادا کریں۔ حکومت کو چاہئے کہ وہ سرکاری ملازمین کے بجائے ملک کے سیاسی اکابرین کو بلوچ مزاحمت کاروں کے ساتھ بات چیت کرنے کاٹاسک دیا جائے تاکہ وہ بلوچستان میں امن کے قیام میں ضامن کے طور پر کام کرسکیں۔
فیصلوں پر عمل درآمد کریں
وقتِ اشاعت : January 14 – 2016