|

وقتِ اشاعت :   January 17 – 2016

ہم کو معلوم ہیں حالات بُرے ہیں لیکن قافلہ چلتا رہے گا یوں ہی چلنے والا اک ذرا اپنے پرائے کا بھرم کھل جائے چند لمحوں میں ہے اب وقت بدلنے والا حکومتِ پاکستان ملک میں چین کے تعاون سے اربوں ڈالرز مالیت کے اقتصادی راہدری کے منصوبے پر تیزی سے آگے بڑھنا چاہ رہی ہے لیکن وقت کے ساتھ ساتھ دشواریاں آرہی ہیں گذشتہ سال چین اور پاکستان نے اقتصادی راہداری منصوبے کی بنیاد رکھی جس کے تحت 46 ارب ڈالر کی لاگت سے چین کو بذریعہ سڑک اور ٹرین کے گوادر کی بندرگاہ سے ملایا جائے گا اس منصوبے پر قومی اتفاق رائے حاصل کرنے کیلئے حکومت کی جانب سے کُل جماعتی اجلاس منعقد کیا گیا تھا 28 مئی 2015 کو ہونے والے اس کُل جماعتی اجلاس کی صدرات وزیراعظم میاں محمد نواز شریف نے خود کی تھی اس اجلاس کے بعد تمام جماعتیں اس قومی منصوبے پر متفق تھیں مگر اب 28 مئی 2015 کے اس اجلاس میں شامل تقریباََ اکثر جماعتیں سراپا احتجاج ہیں ان جماعتوں کا کہنا ہے کہ 28 مئی کی کُل جماعتی کانفرنس میں راہداری کے جس روٹ پر قومی اتفاقِ رائے حاصل کیا گیا تھا اس روٹ پر کام نہیں کیا جا رہا اور وفاقی حکومت نے از خودمنصوبے بنا کر فنڈ ز مختص کر دئیے ہیں جبکہ متفقہ روٹ کو وفاقی حکومتی حکام مغربی روٹ کا نام دیتے ہیں اور حکومت کی طرف سے اب مشرقی اور وسطی روٹس بھی سامنے آگئے ہیں حلانکہ اے ،پی ،سی میں کسی مشرقی اور وسطی روٹ کی نشاندہی نہیں کی گئی تھی مغربی روٹ کے حوالے سے خیبرپختونخوا اور بلوچستان زیادہ احتجاج کرتے نظر آتے ہیں۔ وزیر اعلیٰ خیبرپختونخوا پرویز خٹک نے الزام عائد کیاتھا کہ 28مئی کے اجلاس میں جوفیصلے ہوئے اُن سے نوازشریف مُکر رہے ہیں انہوں نے کہا کہ وزیراعظم نے یقین دہانی کرائی تھی کے پہلے مغربی روٹ تعمیر کیا جائے گا ۔دوسری جانب بلوچستان میں تاہم حکومت مسلم لیگ نون کی ہے تو حکومت کی جانب سے فی الحال تو ایسے کسی تحفظات کا کھول کر اظہار سامنے نہیں آیا مگر بلوچستان کی اکثر سیاسی جماعتیں اپنے تحفظات بیان اور احتجاج کرتی نظر آتی ہیں جن کا مطالبہ یہی ہے کہ مغربی روٹ پر کام جلد از جلد شروع کیا جائے اور روٹ میں کسی قسم کی تبدیلی نہ کی جائے ان احتجاج کرتی جماعتوں کو مطمئن کرنے کے لیے وفاقی وزیر منصوبہ بندی احسن اقبال کوئٹہ تشریف لائے اور وزیر اعلیٰ سکریٹریٹ میں مختلف سیاسی جماعتوں کے وفد اور تاجر برادری سے ملاقاتیں کیں اور ان کے تحفظات دور کرنے کی یقین دہانی کرائی وفاقی وزیر احسن اقبال کے مطابق وہ ان سیاسی جماعتوں کو مطمئن کرنے میں کامیاب رہے مگر بظاہر ایسا نظر نہیں آتا تقریباََ اکثر سیاسی جماعتوں کا جو پُر زور مطالبہ ہے وہ مغربی روٹ پر عملی طور پر کام جاری کرنے کا ہے مگر اس کے بر عکس بلوچستان نیشنل پارٹی (مینگل) کا پہلا مطالبہ گودار کے باشندوں کو اقلیت میں تبدیل ہونے سے بچانے کا ہے اقتصادی رہداری منصوبے پر تحفظات کے پیش نظر بی این پی (مینگل) کی جانب سے اسلام آباد کے ایک مقامی ہوٹل میں 10 جنوری کو آل پارٹیز کانفرنس منعقد کی گئی اس کانفرنس میں منصوبے کے مغربی روٹ کو پہلے مکمل کرنے اور بلوچستان میں ملازمتوں میں بلوچ عوام کو ترجیح اور وسائل پر ان کا حق تسلیم کرنے کی بات بھی کی گئی تھی اس کُل جماعتی اجلاس میں تقریباََ ملک بھر کی اہم سیاسی جماعتیں شامل تھیں سابق چیف جسٹس پاکستان افتخار چوہدری بھی اپنی نئی جماعت کی نمائندگی کر رہے تھے اس اجلاس کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے کہ اس اجلاس میں حکومت کے دو وزراء بھی شامل ہوئے اور حکومت کا موقف پیش کیا ۔اس آٹھ گھنٹے جاری رہنے والے اجلاس میں وزیر اعلیٰ خیبرپختونخوا پرو یز خٹک بھی شریک تھے اجلاس کے اختتام پرمشترکہ اعلامیہ میں سیاسی جماعتوں کا کہنا تھا کہ اس منصوبے کی وجہ سے بلوچ قوم کو اقلیت میں تبدیل ہونے سے روکنے کیلئے فوری طور پر قانون سازی کی جائے اور بلوچستان میں اس منصوبے کے نتیجے میں کی جانے والی سرمایہ کاری میں بھی مقامی لوگوں کوشراکت دار بنانے کیلئے بھی قانون سازی عمل میں لائی جائے۔ بیان میں گوادر میں لاکھوں ایکڑ اراضی کو اصل مالکان کو لوٹانے کا ذکر بھی شامل ہے ۔اس کے علاوہ نیشنل پارٹی کے رہنماء سینٹر حاصل بزنجونے کہا کہ اٹھارویں ترمیم پر مکمل عمل درآمد ہو تو کوئی مسئلہ درپیش نہیں ہوگا انہوں نے کہاکہ بلوچ اپنی تشخص اور زبان نہیں کھونا چاہتے انھیں اس کی ضمانت چاہئے ۔وفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی احسن اقبال نے کہا کہ صوبہ بلوچستان پر اس منصوبے کے تحت سات ارب ڈالرز سے زائد رقم خرچ کی جائے گی ان کا کہنا تھا کہ راہداری منصوبہ کسی ایک صوبے کا نہیں پورے ملک کا ہے جبکہ وفاقی وزیر برائے ریلوے خواجہ سعد رفیق نے اپنے خطاب میں تسلیم کیا کہ محرومیاں ماضی کی غلط پا لیسیوں کی وجہ سے ہیں ۔وہاں ملک میں اقتصادی رہداری منصوبے پر مختلف جماعتوں کے احتجاج اور تحفظات دیکھتے ہوئے چینی سفارتخانے سے بھی گزشتہ دنوں بیان جاری کیا گیا تھا جو انتہائی اہمیت کا حامل ہے جاری بیان میں کہا گیا کہ اقتصادی رہداری پر دونوں ممالک کے درمیان اتفاق رائے پایا جاتا ہے یہ منصوبہ پورے پاکستان کے لیے ہے اور منصوبے کی تعمیر کے لیے پاکستان کے ساتھ مل کر کام کرنے کو تیار ہیں یہ منصوبہ پاکستان کے عوام کے لیے ترقی، خوشحالی لائے گا اُمید ہے سیاسی جماعتیں اقتصادی راہداری پر اختلافات ختم کر لیں گی۔ایسے وقت میں چینی سفارتخانے کا ا بیان جاری ہونا یقیناًغور طلب ہے ۔پاکستان کے لیے اقتصادی راہداری منصوبہ کسی خدائی تحفہ سے کم نہیں کیونکہ اس منصوبے سے پسماندہ صوبوں میں ترقی کی راہ ہموار ہوگی اور یہ منصوبہ پاکستان کی اسٹرٹیجک پوزیشن کی وجہ سے پاکستان کوملا ہے چین اپنا مالِ تجارت پاکستان کے راستے خلیجی ممالک اور وسطی ایشیاء کی منڈیوں تک پہچانا چاہتا ہے کیونکہ یہ راستہ مختصراور کم خرچ ہے جبکہ بھارت بھی اسی راستے سے اپنی منڈیوں تک رسائی حاصل کرنا چاہتا ہے اور بین الاقوامی ایشوز پر گہری نظر رکھنے والے اس بات سے واقف ہیں کہ عالمی طاقتیں بھارت کو چین کے مقابلے میں لانا چاہتی ہیں تاکہ خطے کا توازن برقرار رہے ایسے میں سی پیک منصوبہ پاکستان کیلئے بہت اہم ہے کیونکہ قومی سلامتی کے حساس معاملات بھی منصوبے سے جڑے ہوئے ہیں اور پاکستان دشمن قوتیں نہیں چاہتیں کہ یہ منصوبہ کامیاب ہو کیونکہ اس منصوبے سے پاکستان کی معیشت تو مضبوط ہوگی ہی اس کے ساتھ ساتھ چین جیسا ملک بھی پاکستان کی بیک پر ہوگا خدانخواستہ پاکستان پر کوئی ملک حملہ کرنے کی جسارت کر ے گا تو چین پاکستان پر حملے کو خود پر حملہ تصور کرے گا اور پاکستان کے ساتھ ہر سطح پر کھڑا ہوگا مگر افسوس اس منصوبے کو شعوری یا لا شعوری طور پرسیاست کی نظر کیا جارہا ہے خدا نہ کرے اگر چین کو عالمی طاقتیں یہ باور کرانے میں کامیاب ہوگئیں کہ پاکستان میں عدم استحکام ہے اور چین اس منصوبے سے پیچھے ہٹ گیا تو نا قابل تلافی نقصان پوری قوم کو اٹھانا پڑے گا جس کا شاید ہمیں اندازہ نہیں ہے ۔حکومت کو چاہئے کہ سب سے پہلے گوادر سے وابستہ تحفظات دور کیے جائیں کیونکہ گودار کے بغیر اس منصوبے کی کوئی اہمیت نہیں ہے بی این پی کی جانب سے جو گوادر کہ عوام کے تحفظات پیش کئے گئے ہیں ان پر خصوصی توجہ دینے کے ساتھ ساتھ مغربی روٹ سے متعلق تحفظات عملی کام شروع کر کے مستقبل بنیاد پر دور کیے جائیں کیونکہ ترقی کے خلاف کوئی بھی سیاسی جماعت نہیں ہر ایک کا یکساں مطالبہ ہے کہ ہر صوبے کی خودمختاری کو مدنظر رکھتے ہوئے انصاف کی بنیاد پر تمام کام مکمل کیے جائیں ۔