|

وقتِ اشاعت :   January 19 – 2016

چاروں اطراف اونچے اونچے قد کی بلڈنگوں کے حصار میں جناح روڑ پر واقع کوئٹہ میونسپل کلاتھ مارکیٹ جناح کلاتھ مارکیٹ کے نام سے مشہور پاکستان کی وجود سے پہلے کی مارکیٹ ہے کوئٹہ زلزلہ سے پہلے اس مارکیٹ کا نام مکمہون کلاتھ مارکیٹ تھی۔ وقت کے ساتھ کوئٹہ کی آبادی بڑھتی گئی اور چھوٹے پلازے عالیشان پلازوں کی صورت اختیار کر گئے لیکن جناح کلاتھ مارکیٹ اب بھی انگریزوں کے طور طرز اور انکے ڈیزائن پر بنائی گئی مارکیٹ ہے جس نے اپنی اہمیت کو کھونے نہیں دیا۔ اس مارکیٹ کی خوبی یہ ہے کہ یہ اپنے گاہکوں اور دکانداروں کے لئے ایک کشادہ جگہ فراہم کرتی ہے۔ نہ صرف اسکے اندر گاڑیوں کی پارکنگ کی جگہ موجود ہے بلکہ چاروں اطراف کشادہ دروازے بنائے گئے ہیں۔ ایک دروازہ شاہراہ اقبال جسے قندہاری بازار بھی کہا جاتا ہے یہ اسلئے قندہاری رکھا گیا کیونکہ یہیں سے سڑک قندہار کی طرف نکلتا ہے دوسرا دروازہ تھانہ روڑ، تیسرا دروازہ cloth house 2صرافہ بازار جبکہ چوتھی اور مین دروازہ جناح روڑ کی طرف نکلتا ہے۔انگریز دور حکومت میں بننے والی یہ مارکیٹ زلزلے کے بعد تعمیر ہونے والی ایک قدیم شاہکار مارکیٹ ہے اور انگریزوں نے جاتے جاتے اس مارکیٹ میں اپنے نام کے نقوش چھوڑ دیئے۔ کلاتھ مارکیٹ میں واقع ایک دکان حاجی محمد اشرف ترین کی پیرس کلاتھ ہاؤس کے نام سے مشہور ہے۔ بقول حاجی محمد اشرف جب کوئٹہ زلزلے کے بعد یہ مارکیٹ تعمیر کی گئی تو اسے میونسپل کارپوریش کے حوالے کیا گیا جسکے تحت الاٹمنٹ ہو گئی۔ وہ کہتے ہیں ’’ میرے والد کپڑوں کی خرید وفروخت کا کام کیا کرتے تھے پارٹیشن سے قبل کپڑوں کا کاروبار کرنے کے لئے پرمٹ کی ضرورت ہوتی تھی اور اسکے لئے محدود پیمانے پر کپڑے ممبئی انڈیا سے لایا کرتے تھے لیکن جونہی پاکستان اور ہندوستان کی تقسیم ہوئی اس تقسیم کے بعد سے وہ کپڑے کراچی یا فیصل آباد سے منگواتے ہیں ‘‘۔ انکا کہنا ہے کہ شروع میں دکان کا نام موہن داس کلاتھ ہاؤس رکھا گیا تھا۔ زلزلے سے پہلے یہ دکان پہلے کوئی ہندو چلایا کرتے تھے جس نے بعد میں یہ دکان میرے والد کے حوالے کردی اسٹاف کالج سے تعلق رکھنے والے طلباء جو کہ زیادہ تر پیرس سے تعلق رکھتے تھے اور انکا آنا جانا اس دکان پر ہوا کرتا تھا اسلئے اسکا نام پیرس کلاتھ ہاؤس رکھا گیا۔ کوئٹہ زلزلے کے بعد یورپین اکنامک کمیونٹی نے انگریز حکومت کو جب 5کروڑ20لاکھ روپے کی امدادی گرانٹ دے دی تو انگریز حکومت نے اس رقم سے کوئٹہ کی بحالی کے لئے کام کرنا شروع کیا جس میں یہ کلاتھ مارکیٹ بھی شامل تھے جسے ایک نئی شکل دے دی گئی۔ ڈاکٹر معصوم کاسی جو کہ پیشے کے اعتبار سے پروفیسر ہیں اسکے ساتھ ساتھ انکی ایک دکان منان کرٹن بھی اسی کلاتھ مارکیٹ میں واقع ہے۔ وہ کلاتھ مارکیٹ کی تاریخی اہمیت کے حوالے سے بتاتے ہیں ’’ ہمارا کاسی قبیلہ جو کہ پہلے کچلاک ویلی میں رہ رہے تھے احمد شاہ ابدالی سے لڑائی کے بعد کوئٹہ ویلی منتقل ہو گئے کیونکہ کوئٹہ ویلی زیادہ پر امن تھا اور یہیں سے کاروبار کے ذرائع کھل گئے۔ کوئٹہ ویلی کو کاسی قبیلے نے کاکڑ قبیلے سے قیمتاً خریدی تھی۔ چونکہ کاسی قبیلہ ایک پرامن اور کاروباری قبیلہ تھا تو انہوں نے کاروبار کے ذرائع کو استعمال میں لایا‘‘ وہ کوئٹہ کلاتھ مارکیٹ کو اپنی پشتوں سے کاسی قبیلے کی وراثت سمجھتے ہیں وہ کہتے ہیں کہ کوئٹہ کا میئر انگریزوں کے دور حکومت میں زلزلے تک کاسی قبیلے ارباب خداداد کے پاس تھا۔ وہ کہتے ہیں کہ کلاتھ مارکیٹ کے قیام کے بعد یہاں کی دکانیں انگریز حکومت نے مقامی لوگوں کو الاٹ کیں اور یہ مارکیٹ کپڑوں کی کاروبار کے لئے مشہور ہو گئی۔ جہاں انڈیا، ایران، افغانستان اور بیرون ممالک سے کپڑے لائے جاتے تھے۔ جو ایک پرمٹ کے تحت ہوا کرتا تھا۔ کلاتھ مارکیٹ میں گاہکوں کی اچھی خاصی تعداد آپکو نظر آتی ہے جہاں اچھے کوالٹی کے کپڑے بنوں ملیشا، گریس، شبیر، گل احمد اور دیگر کپڑوں کی خریداری کے ساتھ ساتھ یہاں پرودے اور کارپٹ بھی گاہکوں کو آسانی سے مل جاتے ہیں۔ مارکیٹ کا رش کش نہ صرف عیدیں تک محدود ہے بلکہ اسکے ساتھ ساتھ دیگر دنوں تہواروں، شادی بیاہ کے موقع پر گاہکوں کو اپنی طرف کھینچ کر لاتی ہے۔ 1938کے تعمیر شدہ یہ مارکیٹ اپنی بہتر تعمیرات کی وجہ سے دوبارہ مرمت کا کام نہیں مانگ سکی۔ بقول اکبر کے مارکیٹ کے دکانوں کو اس معیار اور اس میں مٹیریل کا استعمال کیا گیا ہے کہ اگر کوئی زلزلہ آجائے یا کوئی دوسری قدرتی آفت ان دکانوں کو نقصان نہیں پہنچتا۔اتنی بڑی مارکیٹ اور اسکی مینٹیننس کا کام کون کرتا ہے۔ اس حوالے سے اشرف ترین کہتے ہیں ’’ انگریزوں کے دور حکومت میں اسے باقاعدہ میونسپل کارپوریشن کی سرپرستی حاصل تھی اور اسکی تمام تر مینٹیننس کا کام ہر دکاندار سے وصول کی جانے والی 5روپے کی رقم سے ہوا کرتا تھا۔ یہ سلسلہ 1980تک چلتا رہا لیکن پھر اسے لاوارث چھوڑ دیا گیا۔ جسکے لئے یہاں ایک ایسوسی ایشن بنا دی گئی جو کہ مارکیٹ کی دیکھ بھال اور دکانداروں کے مسائل کو حل کرتی ہے۔زلزے سے پہلے کوئٹہ کی آبادی 70ہزار ہوا کرتی تھی زیادہ تر آبادی زلزلے کا لقمہ اجل بن گئی کچھ نقل مکانی کر گئے۔ لیکن انگریز حکومت نے یہاں کی آبادی کو دوبارہ بسانے کے لئے کوششیں شروع کیں اور کاروبار کے ذرائع پیدا کرنے کے لئے کلاتھ مارکیٹ، مٹن مارکیٹ اور دیگر مارکیٹ کے مراکز قائم کئے گئے۔ اب آبادی اتنی بڑھ چکی ہے موجودہ میونسپلٹی پرانے تاریخی مقامات کی جگہ نئے پلازے اور کاروبار کو وسعت دینے کی کوششوں میں لگا ہوا ہے کوئٹہ کی خوبصورتی کوقدغن لگانے کی کوششیں کی جا رہی ہے۔مٹن مارکیٹ کو آجکل کارپارکنگ بنانے کے خلاف مٹن مارکیٹ کے دکانداراں سراپا احتجاج ہیں۔ کہیں ایسا نہیں کہ کلاتھ مارکیٹ بھی زیر عتاب آجائے اور کوئٹہ ایک تاریخی عمارت سے محروم نہ ہو جائے۔ معراج الدین کپڑوں کا کاروبار کرتے ہیں اور خود کلاتھ مرچنٹ ایسوسی ایشن جناح کلاتھ مارکیٹ کے جنرل سیکرٹری ہیں۔ انکی دکان مانچسٹر کلاتھ ہاؤس کے نام سے مشہور ہے۔ مانچسٹر برطانیہ کا مشہور علاقہ ہے آخر دکان کو اس نام سے منسوب کرنے کی وجہ۔ معراج الدین کہتے ہیں ’’ دکان زلزلے سے پہلے قائم تھا جو کہ حاجی دین محمد کو چلایا کرتے تھے زلزلے کے بعد جب مارکیٹ کوئی نئی شکل دے دی گئی تو یہ دکان ہمیں دوبارہ الاٹ کی گئی۔ مانچسٹر اسلئے اسکا نام رکھا گیا کہ پہلے امپورٹد کپڑے منگوایا کرتے تھے زیادہ تر کپڑوں کی برآمدات مانچسٹر سے ہوا کرتی تھی۔ لیکن اب تو لوکل کپڑے بیچے جاتے ہیں لوکل کپڑوں کی کوالٹی بھی اچھی ہے اور خریدار بھی اس کپڑے کو خریدنے کی استطاعت رکھتے ہیں‘‘ وہ کہتے ہیں کہ ایسوسی ایشن کو بنے 25سال ہو چکے ہیں جو کہ دکانداروں کے مسائل پر توجہ دینے کے ساتھ ساتھ مارکیٹ کے مینٹیننس پر کام کرتی ہے۔ مارکیٹ کے اندر 32جبکہ باہر بازار کی طرف 10اور تھانہ بازار کی طرف 10 دکانیں اس ایسوسی ایشن کے انڈر آتی ہیںcloth house 3 لیکن ان دکانوں میں کچھ ایسی دکانیں ہیں جو کہ یا تو پراپرٹی یا دیگر کاروبار کے لئے استعمال میں لائے گئے ہیں۔ اسکی وجہ معراج الدین بتاتے ہیں ’’ یوں تو مارکیٹ باقاعدہ کپڑوں کی دکانوں کی کاروبار کے لئے مختص کی گئی ہے اور مارکیٹ کے لئے بنائے گئے قواعد و ضوابط میں یہ نکات درج ہیں کہ یہ صرف کپڑوں کے لئے مختص مارکیٹ ہے لیکن میونسپل کارپوریشن نے جب دکانیں الاٹ کی ہیں تو دوسروں کے بس میں نہیں کہ دوسرے کاروبار یا آفسز کھولنے سے انہیں روک سکے‘‘۔ دیکھنے میں تو چھوٹی اور محدود دکانوں پر مشتمل یہ مارکیٹ ہے لیکن کشادگی، کارپارکنگ کی سہولیات گاہکوں کے رش کش کا منظر پیش کرتا ہے۔ انگریز دور حکومت میں بننے والی یہ مارکیٹ آج اداروں کی عدم توجہی کے باوجود یہاں کے دکانداروں کی اپنی ملی یکجہتی کے سبب اپنی اہمیت نہیں کھو سکی۔ کلاتھ مارکیٹ کی انٹرینس پر لکھے گئے حروف ہاتھ سے بنے نہیں بلکہ اس بورڈ میں کٹنگ کے ذریعے سے اسکا نام درج ہے جو کہ اس بات کی واضح دلیل ہے کہ یہ مارکیٹ اپنی حیئیت اور قدیم زمانے کی یادوں کو محفوظ کیا ہوا ہے۔ جناح روڑ کی طرف واقع اسکے مین دروازے کے داہنے طرف نصب سنگ مر مر جن پر لکھے گئے حروف اس طرح سے ہیں “Quetta Municipal Cloth Markete Reconstructed in 1938-39 to replace the old McMahon cloth Markete destroyed by earthquake on May 31st May 1935 opened on23rd january 1939 by the JON BLE L.T COL Sir Aurther Parsons” اور اسکی تعمیر بھی یا تو انگریز یا ہندو کمپنی میسرز پربداس اینڈ سنز نے کیا تھا۔ انگریز تو چلے گئے لیکن انہوں نے اپنے نام ضرور چھوڑے یہی وجہ ہے کہ کچھ دکانیں آج بھی ان علاقوں کے نام سے مشہور ہیں جبکہ کچھ نام بدل دیئے گئے۔ جناح کلاتھ ہاؤس بھی ایک تاریخی مارکیٹ ہے اس مارکیٹ کو زیر عتاب لانے کے بجائے اسکی تزئیں و آرائش کا خیال رکھنے کی ضرورت ہے ۔