|

وقتِ اشاعت :   January 20 – 2016

وزیراعظم پاکستان آج کل امن مشن پر تہران اور ریاض کے دورے پر ہیں۔وزیراعظم پاکستان پورے ملک کی نمائندگی کررہے ہیں جس کا مقصد مغربی ایشیاء میں دیرپا امن کا قیام اور دو اتحادوں کو کسی ممکنہ جنگ سے روکنا ہے۔ وزیراعظم نے ریاض کا دورہ مکمل کرلیا اور وہاں سعودی بادشاہ اور ان کے وزیروں اور مشیروں سے ملاقات کی اور مغربی ایشیاء میں دائمی امن کے قیام کے لئے پاکستان کے عوام کی خواہشات کا اظہار کیا۔ مذاکرات میں وزیراعظم کی مدد کے لیے فوج کے سربراہ اور دوسرے افسران شامل ہیں۔ جس وقت یہ اداریہ تحریر کیا جارہا ہے اس وقت پاکستانی وفد تہران میں موجود ہے اور ایرانی صدر سے ممکنہ ملاقات میں پاکستان کی حکومت اور اس کے عوام کی خواہشات کا اظہار کیا جائے گا۔ پاکستان کے عوام کی یہ خواہش ہے کہ دوست ممالک کے درمیان صلح کرایا جائے اور دشمن کے ان تمام سازشوں کو ناکام بنایا جائے جس کا مقصد شیعہ اور سنی یا فرقہ واریت کی بنیاد پر مسلم امہ میں اختلافات پیدا کیے جائیں اور ان کو تصادم کی راہ پر دھکیلا جائے۔ پاکستان اور اس کے رہنما اس کوشش میں ہیں کہ دونوں ممالک کے درمیان تنازعات کو بات چیت اور پرامن طور پر حل کیا جائے مغربی ایشیاء میں کشیدگی اپنی انتہا کو پہنچ چکی ہے۔اب تک عراق، لیبیا، یمن اور شام مکمل طورپر تباہ ہوچکے ہیں اب باری ایران اور سعودی عرب کی ہے۔ دشمن جنگ کی آگ اس خطے میں بھڑکانا چاہتا ہے جس سے دونوں امیر ملک مکمل طور پر تباہ ہوجائیں۔ سعودی عرب پاکستان کا دیرینہ اتحادی اور دوست ملک ہے اور ایران ہمارا ہمسایہ برادر ملک ہے۔ کسی قسم کی جنگ یا ایران میں بدامنی کا مطلب پاکستان کے اندر اس کے دور رس اثرات ہوں گے۔ وجہ یہ ہے کہ بلوچستان کے ایک حصے پر ایران اور دوسرے پر پاکستان کی حکمرانی ہے۔ ایران پر حملہ کی صورت میں جنگ یقیناً پاکستانی بلوچستان تک پھیل جائے گی اور پاکستان نہ چاہتے ہوئے بھی اس جنگ کا حصہ بن جائے گا۔ صرف یہی وجہ ہے کہ وزیراعظم پاکستان آج کل امن مشن پر تہران اور ریاض کے دورے پر ہیں۔ ایران پر بین الاقوامی اقتصادی اور دوسری پابندیوں کے خاتمے کے بعد ایران خطے کا زیادہ طاقتور اور امیر ملک بن کر ابھرے گا۔ اس کے بے پناہ وسائل اور اس کی کروڑوں کی آبادی کا کوئی نعم البدل نہیں ہے۔ لہٰذا ایران کے اثر و رسوخ میں اضافہ ہوتا جائے گا تاہم خطے کے عوام کی یہ جائز خواہش ہے کہ ایران دوسرے ممالک کے معاملات میں مداخلت نہ کرے۔ سعودی عرب ایران پر یہ الزام لگاتا ہے کہ حوثی باغیوں کی مدد ایران کررہا ہے جس نے فوجی قوت کے بل پر یمن کی قانونی حکومت کا تختہ الٹ دیا۔ حکمرانوں کو ملک سے بے دخل کیا اور اب یمن کے طول و عرض پر حوثی باغیوں کا مکمل قبضہ ہے سوائے جنوب کے چند علاقوں کے خصوصاً عدن اور اس کے قرب و جوار جہاں پر یمن حکومت کی حکمرانی جاری ہے۔ شام کا بھی مسئلہ یہ ہے کہ ایران ہر قیمت پر صدر اسد کی حکمرانی برقرار رکھنا چاہتا ہے۔ فی الوقت لاکھوں کی تعداد میں شیعہ رضا کار شام، عراق اور یمن میں لڑرہے ہیں۔ ایران خود اس بات کی تصدیق کررہا ہے کہ وہ ’’دوستوں کی امداد‘‘ کررہا ہے ایسی صورت میں یا خوف کے ماحول میں سعودی عرب نے 34ملکی اتحاد تشکیل دے دیا ہے اور پاکستان نے سرکاری طورپر اس کا اعلان کردیا ہے کہ پاکستان اس اتحاد کا حصہ ہے مگر وہ کسی بھی فوجی کارروائی میں شریک نہیں ہوگا البتہ سعودی عرب پر حملہ ہوا تو اس کا ضرور دفاع کرے گا۔