وٹس اپ، فیس بک اور ٹویٹر پر بلوچستان کی دو سماجی تنظیموں کے اکاؤنٹس چلائی جانے والی اپ ڈیٹ نے ہر ذی شعور انسان کو سوچنے پر مجبور کیا کہ حاجرہ کی علاج کے لئے جمع شدہ پیسے ختم ہو چکے ہیں اور وہاں آغا خان ہسپتا میں داخل حاجرہ کو ہسپتال انتظامیہ کی جانب سے رقم کی ادئیگی کے لئے ڈیمانڈ نوٹس بھیجی ہے اس خبر نے ہلچل مچا دی کسی نے کہا یہ کیا جائے تو کسی نے کہا وہ۔ کسی دوست کی جانب سے یہ رائے سامنے آگئی کہ کیوں نے وٹس اپ گروپ کے ممبران دوبارہ اس کارخیر میں حصہ لے کر اپنا حصہ ڈالیں دیکھتے ہی دیکھتے اعلانات ہونے لگے۔ اعلانات کی تعداد جوں جوں بڑھتی چلی جاتی اس میں حصہ لینے والے آگے بڑھتے کسی نے 1ہزار تو کسی نے 2تو کسی نے 5کسی نے 10اور یہاں تک کسی نے 50ہزار کا اعلان کردے اور اگلے دن اس پر عملدرآمد بھی ہونے لگا جوں جوں رقم جمع ہوتی جاتی ویسے ویسے اسکی اطلاع گروپ ممبران کو دی جاتی۔ آخر حاجرہ ہے کون اور کیوں اسکے لئے سوسائٹی میدان میں آگئی ہے۔۔
حاجرہ جنکا تعلق بلوچستان کے ضلع خاران سے ہے کینسر کے مرض میں مبتلا 14سالہ حاجرہ کی بیماری کی تشخیص آغا خان ہسپتال کی لیبارٹری سے بون میرو ٹیسٹ کی صورت میں سامنے آیا۔ علاج کے لئے ہسپتال انتظامیہ کی جانب سے ایک خطیر رقم کے ڈیمانڈ نے اسکے والدین کی رہی سہی ہمت کو ختم کر دیا۔ ایک دن بلوچی چینل پر چل
نے والی حاجرہ کی کہانی نے اہل بلوچستان کے سامنے ایک نئی تصویر لاکر کھڑی کر دی پھر یہ سلسلہ سوشل میڈیا کے ذریعے ایک نوجوان شعیب درازئی نے حاجرہ کے نام سے فیس بک پیج بنا کر اس تحریک کا آغاز کردیا اور اس تحریک نے ایک منظم شکل اختیار کی۔
سول سوسائٹی بلوچستان اور کوئٹہ آن لائن دو ایسی سماجی تنظیمیں ہیں جنکا کام مثبت سرگرمیوں کا انعقاد اور سماجی مسائل کو سوشل میڈیا کے ذریعے اجاگر کرنا ہے۔ اور اس میں بڑی حد تک دونوں کامیاب ہوتا دکھائی دے رہے ہیں اور بہت سی سرگرمیاں ایک ساتھ کرکے ایک دوسرے کا شانہ بشانہ چلنے کا عزم لئے ہوئے ہیں۔ سول سوسائٹی بلوچستان کا آغاز وٹس اپ گروپ کے ذریعے جبکہ کوئٹہ آن لائن فیس بک کے ذریعے سامنے آیا۔حاجرہ کا کیس انہی میں سے ایک ہے جسے ٹیسٹ کیس کے طور پر لیا گیا۔ اور حاجرہ کی زندگی بچانے کے لئے انہی اداروں نے ایک تحریک کی شکل دے کر اسے میڈیا، سوشل میڈیا اور دیگر حلقوں میں اجاگر کرنے میں کامیاب ہوئے۔ کوئٹہ آن لائن کے بانی رکن ضیاء خان کا کہنا ہے ’’ حاجرہ کا کیس سب سے پہلے سوشل میڈیا کے ذریعے اجاگر ہوا اسکے بعد سول سوسائٹی بلوچستان نے اس کیس کو اون کرکے اسے کوئٹہ آن لائن کے ساتھ ملکر چلانے کا فیصلہ کیا اور مجھے اس کیس کا فوکل پرسن مقرر کیا گیا۔ شروع میں دونوں اداروں نے ملکر چندہ مہم کے ذریعے107000روپے جمع کئے جو کہ حاجرہ کی زندگی کو بچانے کے لئے ناکافی تھے پھر سوشل میڈیا کے ذریعے اسے اجاگر کیا گیا۔ #LetsSaveHajiraکے عنوان سے ٹرینڈ چلائے گئے جسکے مثبت نتائج سامنے آنے لگے۔ سب سے پہلے بی این پی کے سربراہ سردار اختر میگل نے اس کا مثبت جواب دیا اور 5لاکھ روپے حاجرہ کی علاج کے لئے دے دیئے اسکے بعد زبیدہ جلال نے 1لاکھ روپے جمع کئے۔ جبکہ خالد لانگو کی جانب سے اعلان کردہ 20لاکھ روپے بھی متوقع ہیں کہ مل جائیں جبکہ نواب ثناء اللہ زہری کی جانب سے اعلان کردہ 10لاکھ روپے بھی موصول ہو چکے ہیں اسکے علاوہ سول سوسائٹی کی جانب سے دوبارہ چندہ مہم چلانے سے اب تک 3لاکھ کے قریب رقم جمع ہو گئی امید ہے ہے باقی رقم بھی جلد جمع ہو جائے گی‘‘۔
جمع ہو جانے والی رقم کو صاف و شفاف طریقے سے حاجرہ کے علاج کے لئے ممکن بنانے کے لئے متحرک سماجی دوستوں کی جانب سے ایک نظام کا سہارہ لیا گیا ہے وہ نظام ہے براہ راست آغا خان ہسپتا ل کی جانب سے حاجرہ کے لئے کھولی گئی اکاؤنٹ میں جمع ہونا اور وہاں ہسپتال کی جانب سے جمع ہوجانے والی رقم کی رسید انہیں واپس کرنا ہوتا ہے جو کہ مذکورہ شخص دیئے جاتے ہیں جنہوں نے یہ ڈونیشن دی ہے۔ یہ ایسا شفاف طریقہ کار اختیار کیا گیا ہے جو کہ اعتماد کو بحال رکھنے میں ایک اہم طریقہ ہے۔
سول سوسائٹی بلوچستان کے کنوینیئر سمیع زرکون کا کہنا ہے ’’ جیسے ہی ہمیں سوشل میڈیا کے ذریعے یہ کیس ملی تو ہم نے سب سے پہلے حکومت بلوچستان کے سامنے رکھی جہاں اس کا حل نہیں نکلا تو دوستوں نے ملکر اس مسئلے کو سلجھانے کے لئے سوشل میڈیا کا سہارا لیا اور اس میں کامیاب بھی ہوئے۔ 18لاکھ روپے ہمیں حاجرہ کی علاج کے لئے مختلف مکاتب فکر اور چندہ مہم کے ذریعے حاصل ہو چکے ہیں اور امید کرتے ہیں کہ میر خالد لانگو کی جانب سے اعلان کردہ پیسے بھی جلد مل جائیں اور حاجرہ کے علاج میں کوئی رکاوٹ نہیں آئے۔
عبدالمطلب حاجرہ کے ماموں ہیں اور ہسپتال میں داخل حاجرہ کی دیکھ بال اور تیمارداری کے لئے وہاں موجود ہیں۔ وہ حاجرہ کا دکڑا سناتے ہوئے آبدیدہ ہوجاتے ہیں اور ساتھ ہی ساتھ سول سوسائٹی بلوچستان، کوئٹہ آن لائن اور تعاون کرنے والے دیگر افراد کا شکریہ ادا کرکے کہتا ہے ’’ شروع میں جب اس مرض کی تشخیص ہوئی تو ہمارے پاس پیسے ہی نہیں تھے کہ انکی بنیادی علاج کراتے لیکن پھر اللہ نے ذریعہ بنا لیا۔ سماجی تنظیمیں میدان میں آگئیں اور انہوں نے حاجرہ کے علاج کا بیڑا اٹھایا۔ جب ہم اسے شوکت خانم ہسپتال لے گئے تو وہاں انہوں نے ایڈمٹ کرنے سے انکار کر دیا۔ پھر ہم اسے واپس کوئٹہ لائے لیکن وہاں بھی اسکا علاج نہیں ہو سکا تو آغا خان ہسپتا ل کی جانب سے مہنگا علاج ہمارے دسترس میں نہیں تھی پھر یہ لوگ آگئے انہوں نے ہماری مدد کی حاجرہ کو آغا خان ہسپتال داخل کروایا۔ ڈیڑھ ماہ سے کیمو تھراپی چل رہا ہے جو کہ چار ماہ تک جاری رہے گی‘‘
حاجرہ اب پہلے کی نسبت کافی بہتر نظر آرہے ہیں۔ انکو نئی زندگی مل گئی ہے ۔ اور چند افراد کی کوششوں سے ایک بڑا مسئلہ حل ہونے میں مدد ملی ہے۔ بلوچستان میں بھی بہت سے حاجرہ ہیں جو زندگی کی کشمکش میں ہیں اور اسی کشمکش میں زندگی ہار جاتے ہیں تو کیا ایسا لائحہ عمل اپنایا جا سکتا ہے کہ ایک منصوبہ بندی کے تحت بلوچستان کی سطح پر ایسے اداروں کا قیام عمل میں لائی جا سکے جو کہ ہر عام و خاص کی اس تک رسائی ہو۔ یہی سوال ڈویلپمنٹ سیکٹر سے وابسطہ سوشل ایکٹویسٹ امداد بلوچ سے کیا۔ ’’ میں سمجھتا ہوں کہ بڑے منصوبے حکومت ہی بنا سکتا ہے گورنمنٹ کو چاہئے کہ مستقبل کی منصوبہ بندی کرتے ہوئے ایسے اداروں کا قیام عمل میں لائے جو کہ نچلی طبقوں کی اس تک رسائی ہو۔ جہاں انہیں سستا علاج معالجہ ہاتھ آجائے۔ دوسری جانب بلوچستان میں کام کرنے والی رجسٹرڈ این جی اوز کی تعداد 2500سے زیادہ ہے لیکن ان میں ویلفیئر کا کوئی پروجیکٹ نہیں بلکہ وہ ڈونرپلان کے مطابق کام کرتے ہیں جو کہ عوامی فلاح کے لئے ہوتا نہیں۔ اگر دیکھا جائے حاجرہ کا مسئلہ سول سوسائٹی نے اٹھایا تو کل اور بھی اس قسم کے کیسز سامنے آئیں گے تو انکے لئے چندہ مہم کا سلسلہ تو نہیں کیا جائیگا حاجرہ ایک ٹیسٹ کیس ہے اب حکومت اور سماجی اداروں کو ملکر اس مسئلے کا حل نکالنا چاہئے۔ اور ایک لانگ ٹرم پالیسی دینے کی ضرورت ہے‘‘۔
دوسری جانب ضیا خان کا کہنا ہے کہ حاجرہ سے پہلے اس قسم کے دو اور کیسز تھے جنہیں کوئٹہ آن لائن کے پلیٹ فارم سے حل کیا جا چکا ہے ۔ وہ کہتے ہیں کہ زندگی کا مقصد ہی دوسروں کی خدمت اور انہیں خوشیاں پہنچانے میں لگ جائے تو خوشی خود بخود آپکے دامن کو چھونے لگتی ہے۔
بلوچستان میں ایسے نوجوانوں کی کمی نہیں جو متحرک رہتے ہیں کام کرتے مسئلے دیکھتے ہیں انکے حل کے لئے راستوں کا تعین کرتے ہیں حاجرہ کا کیس سول سوسائٹی کے لئے ایک ٹیسٹ بیس رکھتی ہے لیکن سماج میں موجود اور بھی حاجرہ ہیں جو علاج معالجے کے منتظر ہیں لیکن انکی معاشی حالت انکے علاج کے سامنے رکاوٹ ہے۔ سول سوسائٹی کے ادارے اپنی کوششوں میں لگے ہوئے ہیں۔ انہیں ٹیسٹ بیس کی بنیاد پر ایک کامیابی ملی ہے اب اس کامیابی کو لیکر آگے انکے پاس کیا فیوچر پلان ہے آیا وہ ایسے ہی انفرادی کیسز پر اپنی توانائی خرچ کریں گی یا اسے اجتماعی سوچ اور منصوبے کے تحت بلوچستان کی سطح پر کینسر اور دیگر موزی امراض کے لئے ہسپتال اور مفت ادویات کی فراہمی کے لئے حکومت پر اپنا پریشر ڈالے گی۔جو آنے والے وقتوں میں انکے لئے ایک کڑا امتحان بھی ثابت ہو سکتا ہے اور ایک نتیجہ خیز جدوجہد بھی۔
کینسر سے لڑنے والی معصوم حاجرہ: سوشل میڈیا کا کردار
وقتِ اشاعت : January 21 – 2016