پروفیسر ڈاکٹر شاہ محمد مری صاحب کسی تعارف کے محتاج نہیں۔ شعبہ صحت میں فرض نبھایا ادب اور سیاست سے دوستی کی۔ بلوچستانی روح کو سمجھا اور اسے اپنی پر اثر تحاریر اور تصانیف کے ذریعے نمایاں کیا۔ وہ گزشتہ ربع صدی سے بولان میڈیکل کالج میں پڑھا رہے ہیں۔ جہاں سے ان کے ہزاروں طالب علم فارغ التحصیل ہوئے۔وہ اپنے پراثر تحاریر ، مسکراہٹ سے دلوں کو جیتنا بھی جانتے ہیں بلند حوصلے کا مالک یہ انسان دوسروں کے لئے حوصلے کا ذریعہ بھی بنتا ہے۔ان کا وقت بڑا قیمتی اور مصروف رہتا ہے لیکن پھر بھی وہ اپنی انہی مصروفیات میں سے اپنے چاہنے والوں کے لئے ٹائم ضرور نکال لیتے ہیں۔ رہی بات انٹرویو سیشن کی وہ تو وقت مانگتا ہے لیکن انہوں نے اپنی انہی مصروفیات کے باوجود روزنامہ آزادی کے لئے وقت نکالا اور مجھ جیسے شاگرد کو چند سوالات پوچھنے کا شرف بخشا۔
س:ڈاکٹر صاحب ادب اور صحت دو الگ شعبے ہیں آپ بیک وقت دونوں فرائض بخوبی سرانجام دے رہے ہیں دونوں شعبوں کو چننے کا مقصد کیا تھا؟
ج: ایک میرا پیشہ ہے۔ دوسرے کو میرا شوق کہیں یا سماجی ذمہ داری ۔ دونوں کو میں نے اچھا نبھایااور نبھا رہا ہوں۔
س:لکھنے کا شوق کب پیدا ہوا؟اس کا آغاز کہاں سے کیا اور ادب کے شعبے میں قدم کیسے رکھا؟
ج: جب میں میٹرک میں تھا تو پڑھنے کی عادت پیدا ہو گئی یہ وہ چیز تھی جس نے مجھے لکھنے پر آمادہ کر دیا۔ MBBSتک پہنچتے پہنچتے لکھنے لگا۔ شروع میں ادب سے دلچسپی نہیں تھی ۔اس کام کا آغاز کسی اخبار سے کیا۔ سیاسی کارکن تھا۔ سیاسی باتیں لکھتے اور پڑھتے ادب کا ذوق بھی پیدا ہوا۔میں نے ادب میں وہ کام کیا جو میری سیاست سے ہم آہنگی رکھتا تھا۔ میں نے شاعری نہیں کی۔ ناول، شارٹ اسٹوری نہیں لکھے۔ترجمے کئے وہ بھی جو میری سیاست سے مطابقت رکھتے تھے ۔ پھر مجھے ضرورت پڑی سیاسی نظریات کی اسی ضرورت کے مطابق ادب پہ کام کیا۔ میرا زیادہ کام سوشلزم اور بلوچستان پر ہے۔ ان دونوں کو پڑھتا ہوں لکھتا ہوں اور بولتا ہوں۔کتابی صورت میں میری پہلی تحریر کاسترو کے انٹرویو پر مبنی ایک انٹرویو تھا۔ جس کانام تھا امریکی قرضے ۔ جسے پمفلٹ کی صورت میں شائع کیا گیا۔
س: سیاست اور ادب کا کتنا گہرا تعلق ہے؟
ج: یہ دونوں ایک دوسرے سے جڑے ہوئے شعبے ہیں۔ یہ دونوں ایک دوسرے کے بغیر اپنا وجود قائم نہیں رکھ سکتے۔ سیاست کا مطلب زندگی ہے۔ زندگی کے مسائل و وسائل، زندگی کی خوشی اور غم۔ اس لئے سمجھتا ہوں کہ دونوں کی بقاء ایک دوسرے کے ساتھ جڑے رہنے میں ہے۔ اگر دونوں کو الگ کیا جائے تو وہ بے معنی رہ جاتے ہیں۔ میں نے دونوں کو فرض سمجھ کر نبھایا۔
س: تو کیا سیاست میں کوئی پلیٹ فارم ہوا کرتا تھا جس کی سطح پر آپ نے سیاست کی ؟
ج: پاکستان سوشلسٹ پارٹی کے نام سے ایک پارٹی ہوئی کرتی تھی۔ جس کے سربراہ سی آر اسلم تھے۔جن کی طلباء تنظیم سوشلسٹ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن تھی۔میں پاکستان کی سطح پر اس اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کا جنرل سیکرٹری تھا۔ پھر وہ پارٹی ضم ہو گئی۔ نیشنل ورکر پارٹی میں رہا۔ لیکن جب لیڈر سی آر اسلم فوت ہوئے اور میں بلوچستان آیا تو بلوچستان کی سطح پر کام شروع کیا۔ بلوچستان کی ضروریات کو دیکھتے ہوئے کام کیا۔
س: شعبہ صحت کو وقت دیتے ہیں پڑھتے ہیں، لکھتے ہیں۔ پروگرام کرتے ہیں۔ سماجی خدمات انجام دیتے رہتے ہیں اور گھر کے معاملات کو بھی دیکھتے ہیں ۔اتنا وقت آتا کہاں سے ہے؟
ج: وقت ہاتھ نہیں آتا۔ وقت کو چوری کرنا پڑتا ہے۔ شاید اس کے لئے کوئی فارمولا نہ دے سکوں۔ہر انسان کے اپنے حالات ہوتے ہیں۔ کچھ لوگوں کو روزگار کرنا پڑتا ہے۔ کچھ لوگوں کو گھر کے کام دیکھ بھال کرنے پڑتے ہیں۔ میں نے بہت سے کام ترک کر دیئے پروگرامات اٹینڈ کرنا کم کئے۔ زیادہ سفر سے گریز کرتا ہوں۔ بہت سی تنظیموں کی سربراہی اور سرکاری عہدوں کی پیشکش اسی ایک کام کو دیکھتے ہوئے ٹھکرا دیں۔یہی میرا مشغلہ اور یہی میری عبادت ہے کیونکہ اگر اسے ٹائم نہ دوں تو میرا حقیقی کام جو میں اس وقت کر رہا ہوں وہ رہ جائے گا۔ سنگت اکیڈمی، خواتین کی تنظیم سموراج نے میرے حلقہ احباب کو مجھ تک اور مجھے ان تک رسائی حاصل کرنے میں آسانی پیدا کی ہے۔ ان کے ساتھ کام کرنا، انہیں ایجوکیٹ کرنا، لکھنا، پڑھنا، منشور بنانا، قراردادیں بنانا، رسالہ چلانا یہ سارے وقت مانگتے ہیں اور ان کے لئے بہت سی چیزیں ہیں جو ترک کرنی پڑتی ہیں۔میں نے کوشش کی ہے کہ اپنا کام اشتہار بازی کے بغیر کروں اور اپنا کام کسی کونے میں بیٹھ کر کیا جائے۔ تو یہ اچھا ہے۔ اس کے نتیجے میں میرا کام بہت اچھا جا رہا ہے اور دوست اور احباب کی تعداد بڑھتی گئی اور کاروان بنتا گیا۔
س:کن شخصیات نے بلوچستان کی سیاست میں اہم کردار ادا کیا؟
ج: اس سوال کا جواب آسان الفاظ میں دینا ایک مشکل کام ہے۔ وقت و حالات، زمین و مقام کا فرق رہا ہے۔ مختلف ادوار آئے ہر دور میں ہر ایک نے کسی نے کسی شکل میں کام کیا۔ جن کا ذکر میں نے’’ عشاق کے قافلے‘‘ میں بھی کیا ہے۔ اگر آپ یہ کہیں کہ ابتدائی سیاسی آدمی کون تھا تو وہ عبدالعزیز کرد تھے۔ اس کے علاوہ یوسف عزیز مگسی، امین کھوسو، عبدالصمد اچکزئی پہلے دور کی شخصیات تھیں۔ دوسرا دور آیا تو شہزادہ عبدالکریم، میر غوث بخش بزنجو، ملک یوسفزئی، بابو شورش، فیض محمد اس کے علاوہ اور بھی بے شمار نام ہیں جنہوں نے بلوچستان کی سیاست کو زندہ رکھا۔
س: موجودہ دور میں یہ سہرا کس کے سر باندھتے ہیں؟
ج: اس کا جواب دینا بہت مشکل ہوگا کہ کون سی سیاسی شخصیت اچھی ہے۔ ہماری نظر میں سیاسی جماعتیں دو طرح کی ہوتی ہیں۔ ایک وہ جو نظام کو سماجی اور معاشی طور پر برقرار رکھنی چاہتی ہے اور دوسری وہ جو ناانصافی کو ختم کرکے ایک انقلابی سیاست کرنا چاہتی ہو۔ میں سمجھتا ہوں کہ وقت کا تقاضا بھی یہی ہے کہ انقلابی سیاست کی جائے۔ ہاں البتہ سیاست کو زیر زمین لے جانے کے بجائے اسے ظاہر ہونا چاہیے۔مشکلات و مصائب اپنی جگہ پر لیکن اس پر پیشرفت کرنی چاہیے۔ عام آدمی کی باتیں کی جائیں۔ عام سی تنظیمیں بنائی جائیں، عام سی سرگرمیاں کی جائیں۔تنظیمیں بنانے سے بڑا انقلابی کام بلوچستان میں نہیں ہے۔
س: عشاق کے قافلے کی بات آپ نے کی جو کتابوں کی ایک سیریز ہے ۔اب تک کتنی کتابیں اس کے تحت شائع ہو چکی ہیں اور اس کے علاوہ دیگر کتنی کتابیں آپ تصنیف و تراجم کر چکے ہیں؟
ج: میں اسکور بورڑ کے سخت خلاف ہوں۔ میں نے جو کچھ لکھا ہے۔ اتنا ہی کافی ہے۔ سب سے اہم کام جو میں نے کیا وہ ہے۔ ’’عشاق کے قافلے‘‘ 30جلدوں پر مبنی ایک سیریز ہے۔ ہر جلد 1فرد سے لے کر 20شخصیات کی بائیوگرافی اور سیاسی سوانح عمری پر مشتمل ہے۔ اب تک 22جلدیں چپ چکی ہیں۔ 8پر کام جاری ہے۔ یہ ان شخصیات کی جدوجہد پر مبنی سیریز ہیں۔ جنہوں نے تاریخ میں روشن فکری پر کام کیا۔ مصیبتیں جھیلیں۔ اس سیریز کی پہلی جلد مزدک ہے۔ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ وہ بلوچ تھا جبکہ کچھ لوگوں کے خیال میں یہ ایران سے آیا تھا۔ البتہ تھا تو بہت اہم۔اس کے علاوہ میرے دو اور اہم کام جو میں نے کئے۔ ایک بلوچستان کی تاریخ پر مبنی ہے 7 جلدوں پر مشتمل یہ کتاب بلوچستان کے عام اور نچلے طبقات کی تاریخ ہے جبکہ دوسری 4جلدوں پر مشتمل بلوچی زبان و ادب کی تاریخ، یہ وہ کام تھے جو بہت اہم تھے اور انہیں سر انجام دیتے ہوئے مجھے خوشی محسوس ہوئی۔
س: سنگت اکیڈمی کا خیال کیسے آیا اور اسکی بنیاد کیسے ڈالی؟
ج: صحافتی زندگی کا پہلا پڑاؤ لاہور سے شائع ہونے والے اخبار عوامی جمہوریت سے تھا جو کہ پاکستان سوشلسٹ پارٹی کا ترجمان اخبار تھا۔ اس کے لئے بلوچستان کی خبریں بھیجتا تھا۔ ایم فل کرکے واپس آیا توسیاست اور صحافت پر کام کرنا ہی تھا۔ بابو عبدالکریم شورش کا رسالہ’’ نوکیں دور‘‘ جو بند ہو چکا تھا۔ ہم نے اس پر دوبارہ کام شروع کیا۔ وہی عوامی جمہوریت کی پالیسی کو جاری رکھا۔ 1990سے 97تک اس کو چلاتے رہے۔ پھر سنگت کا خیال آیا۔ اسی ٹیم نے مل کر اس کے لئے کام شروع کیا۔ پھر ہم نے دو تنظیمیں بنائیں ۔پہلی تنظیم پروگریسیو رائٹرز ایسوسی ایشن تھی۔ جس کے بعد ہم نے لبز چیدغ بنائی جو کہ چار سال تک بہت ہی کامیاب تنظیم کی صورت میں سامنے آئی۔ جہاں ادبی نشستیں ہوتی تھیں۔ اس کے بعد دوبارہ پروگریسیو رائٹرز ایسو سی ایشن کو فعال کیا۔ جب یہ دونوں بند ہوئے تو مقامی نام سوچ کر تنظیم’’ سنگت اکیڈمی آف سائنسز‘‘ کا قیام عمل میں لائے جو نہ صرف ادبی بلکہ تحقیقی، صحافتی شعبے اور دانشوروں کی اکیڈمی ہے۔ اسی ادارے سے کتابوں کی نشر و اشاعت اور سنگت میگزین کا اجراء بھی کیا جاتا ہے۔
س: سنگت اکیڈمی آف سائنسزکو شروع کرتے وقت کیا چیلنجز درپیش آئے اور افرادی قوت کتنی تھی؟
ج: افرادی قوت اچھی تھی ۔سب سے اہم کام جو اس کے ذریعے سے کرنا تھا وہ تھا ادبی نشستیں۔ شروع میں جذباتی انداز میں ہر ہفتے ادبی نشستیں ہوا کرتی تھیں۔ پھر پندرہ روزہ کر دی گئیں۔ گزشتہ چھ سال سے باقاعدہ اور مسلسل ماہانہ ادبی نشستیں منعقد کی جارہی ہیں۔ ہر تین مہینے کے بعد ایک بڑی کانفرنس ہوتی ہے۔ مارچ کے مہینے میں عالمی یوم خواتین کی مناسبت سے پروگرام کا انعقاد کیا جاتا ہے۔ کئی سالوں سے مئی کے مہینے میں ایک دن یوسف عزیز مگسی، کارل مارکس، عبداللہ جان جمالدینی، سوبھوگیان چندانی ہیروز کے نام کرکے مناتے ہیں۔کوشش کرتے ہیں کہ اگست کا مہینہ جو کہ میر غوث بخش بزنجو کی وفات کا مہینہ ہے۔ اس کی مناسبت سے منائیں۔ نومبر کے آخر میں سنگت اکیڈمی کی جانب سے ایک بڑی تقریب منعقد کی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ پوہ و زانت پروگرام بھی اسی کا حصہ ہے۔
س: پوہ و زانت پروگرام کیسا سلسلہ ہے اور اس کے مقاصد کیا ہیں؟
ج: ادبی نشستوں کو ہم نے نام دیا ہے۔ پوہ و زانت کا مطلب ہے شعور و آگاہی۔ اس میں دو سیشن ہوتے ہیں۔ پہلے سیشن میں لیکچر پروگرام رکھتے ہیں۔ جس میں مختلف شعبہ جات اور ادبی لیکچرز پیش کئے جاتے ہیں۔ پروگرام کا دوسرا حصہ شارٹ اسٹوریز اور شاعری پر تنقیدی بحث و مباحثہ پر مشتمل ہوتا ہے۔
س: ادارے کی جانب سے سنگت تراجم سیریز بھی شروع کی گئی ہے اس کے کیا مقاصد ہیں؟
ج: اس کے بہت سارے مقاصد ہیں۔پہلا مقصد بلوچی زبان میں ناول، ڈرامہ اور شارٹ اسٹوریز کا فروغ‘ اس کے علاہ ناول کو نئی جہتوں کے اندر کس طرح ڈالا جا سکتا ہے۔ نوجوانوں کو گائیڈینس نہیں ہے کہ ناول کا پلاٹ کیا ہوتا ہے۔ اس کے کردار کیا ہوتے ہیں۔ اس کا کلائیمیکس کیسے بنتا ہے۔ اس سے کوئی سبق اخذ کیا جا سکتا ہے یا نہیں۔ تو ہم نے اس کے لئے یہ طے کیا کہ جو بین الاقوامی اسٹینڈرڑ کلاسیکل ادب ہے۔ اس کا ترجمہ کیا جائے۔ دوسرا یہ کہ بین الاقوامی سطح پر ادب کے شعبے میں نیا کیا وجود میں آیا ہے۔ اس کے حوالے سے نوجوانوں کو آگاہ کیا جائے۔ تیسرا اور اہم معاملہ کہ بلوچی زبان ایک لہجے پر نہیں بلکہ کئی لہجوں پر مشتمل زبان ہے۔ اس پر کام کیا جائے۔جس کے لئے گل خان نصیر جو اس وقت وزیر تعلیم تھے‘نے ایک سیمینار منعقد کرایا لیکن بات نہیں بنی اور 1970سے یہ مسئلہ چل رہا ہے۔ بلوچی زبان میں رسم الخط اور لہجوں کا فرق ہے تو اس پر بھی کام کرنا مقصود تھا۔اس کے تحت بہت سی کتابوں کے ترجمے کئے جا چکے ہیں اور کچھ پر کام جاری ہے۔ یہ سب اسی کی کڑی ہے۔ ناول چونکہ سب سے پاپولر چیز ہے اگر اس میں ایک دوسرے لہجے کا ایک صفحہ پر ملاپ ہو توشاید بات بن جائے۔ سنگت متراجم سیریز کے ذریعے ہم نے کوشش کی ہے کہ اس کو سادہ اور فہم زبان میں سامنے لایا جائے تاکہ عام افراد کے لئے بھی یہ قابل قبول ہو۔
س: کتابیں بھی چپ رہی ہیں۔رسالے بھی شائع ہو رہے ہیں۔ سنگت آن لائن ویب سائٹ کی ضرورت کیوں پیش آئی؟
ج: دیکھئے بلوچ کسی ایک حصے کا باسی نہیں۔ یہ تو دنیا کے طول و عرض میں پھیلی ہوئی قوم ہے۔ ایسے علاقے ہیں جہاں یا تو ہماری کتابیں اور رسالے پہنچ نہیں پاتے یا کچھ ایسے بھی لوگ ہیں جو خریدنے کی استطاعت نہیں رکھتے۔ تو اس کام کے لئے ہم نے ویب سائیٹ کوساتھ ساتھ جاری رکھا ہوا ہے ۔یورپ، گلف اور دیگر ممالک میں اس تک ہر ایک کی رسائی ممکن ہے۔ اس سے ایک بڑا کام یہ ہوا ہے کہ لوگ لکھ رہے ہیں۔ فیڈ بیک دے رہے ہیں۔ رابطے میں ہیں اور ایک شعور و آگاہی کا کام ہو رہا ہے۔
س: ہم دیکھتے ہیں کہ سیاسی، صحافتی اور ادبی اداروں پر ایک قسم کی اجارہ داری قائم کرنے کی کوشش کی جاتی ہے تو سنگت اکیڈمی کتنی مختلف ہے؟
ج: ہمارے ہاں سلسلہ الگ سا ہے۔ سنگت اکیڈمی کے ہردو سال بعد الیکشن ہوتے ہیں۔ نئے چہرے سامنے آجاتے ہیں اور اسے جمہوری انداز میں چلایا جاتا ہے۔ یہ نہیں ہوتا کہ کابینہ الگ ہوتی ہے اور اختیارات کسی اور کے پاس۔ کابینہ کا سربراہ سیکرٹری جنرل ہوتا ہے۔ کابینہ کو مکمل اختیارات حاصل ہوتے ہیں۔ ہر وہ شخص جو سنگت اکیڈمی کے پروگراموں سے اتفاق رکھتا ہے 18سال اس کی عمر ہو اور قواعد و ضوابط کی پابندی کرتا ہے تو وہ سنگت اکیڈمی کے پروگراموں میں شرکت کر سکتا ہے ۔اس کے لئے ادیب ہونا ضروری نہیں۔ ادب دوست ہو تو اچھی بات ہے۔اگر یہ بھی نہیں تو بلوچستان اور انسان کے بارے میں ہمدردی رکھتا ہو پروگراموں میں شرکت کرنے کے لئے ممبر ہونا بھی ضروری نہیں۔ اسے موقع بھی دیا جاتا ہے۔ شاعری کر سکتا ہے تاریخ پر بات کر سکتا ہے ہم ہر ایک کوکھلے دل سے خوش آمدید کہتے ہیں۔ اگر وہ سنگت اکیڈمی کے پروگراموں سے اتفاق کرتا ہے۔ ہم نے کوشش کی تھی کہ ادارے کا دائرہ وسیع کرکے اسے دوسرے اضلاع تک پھیلایا جائے ۔یہ کام ممکن نہیں ہو سکا ۔یہ اس لئے نہیں ہو سکا کہ کچھ ادارے پہلے سے کام کر رہے تھے۔ ہم نے سوچا کہ اگر ہم کام شروع کر دیں تو ایسا نہ ہو کہ وہ ادارے جو چل رہے ہیں وہ بند ہو جائیں تو ہم ان اداروں کے ساتھ بھر پور تعاون کرنے کو تیار ہیں۔ جو ادب اور تحقیق و تخلیق پر کام کر رہے ہیں۔
س: اردو رابطے کی زبان ہے۔ بلوچستان میں بہت سی زبانیں بولی جاتی ہیں۔ کون سی زبان قومی زبان کہلا سکتی ہے اور اسے رابطے کی زبان کیسے بنایا جا سکتا ہے؟
ج: اردو پاکستان، بلوچستان لیول پر رابطے کی زبان ہے۔ بلوچستان کی قومی زبان تو بلوچی ہے ۔ہر وہ زبان جو لوگ مادری زبان کے طور پر بولتے ہیں۔ وہ ان کی قومی زبان کہلاتی ہے۔ تو بلوچی ہو گئی نہ بلوچستان کی قومی زبان۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ بلوچوں کی ایک سے زیادہ زبانیں ہیں لیکن زیادہ بولی جانے والی زبان بلوچی ہے۔ اسے رابطے کی زبان بنانے کے لئے بڑی جدوجہد کی ضرورت ہے۔ اس کے لئے ریاستی اقتدار تک پہنچنے کی ضرورت ہے اور وہیں سے اسے سرکاری، دفتری، عدالتی، مارکیٹ کی زبان کے طور پر استعمال میں لانے کے لئے کوششیں کرنے کی ضرورت ہے۔ چونکہ یہ کام ریاست ہی کر سکتی ہے اور ہمارے پاس ریاست ہے ہی نہیں تو یہ ایک مشکل کام ہے۔ ہماری تنظیموں سے جو ہو سکتا ہے وہ ہم کر رہے ہیں۔ ہماری کوشش ہے کہ ادارے کی جانب سے شائع ہونے والی کتابوں اور میگزین کے ذریعے اس زبان کو پروان چڑھایا جائے۔
س: آج کا معاشرہ عدم برداشت کا شکار ہے۔ خصوصاً نوجوان نسل غیر ضروری بحث مباحثوں میں الجھتے ہیں۔ ان مسائل سے نکلنے کے لئے انہیں کیا کرنا چاہیے؟
ج: پہلی بات یہ ہے کہ نوجوانوں کو اپنے کام کا تعین کرنا چاہیے کہ انہیں کرنا کیا ہے۔ انہیں کون سا شعبہ چننا ہے۔ اگر اس کے ساتھ ساتھ کسی بحث کی ضرورت پڑے تو وہ ایک دائرے کے اندر رہتے ہوئے کریں۔بجائے الجھنے کے اس بحث کو ایک عملی جامع پہنائیں اور بحث وہ ہو جو نتیجہ خیز ہو۔ اگر ابھی تک فیصلہ نہیں کیا ہے کہ کرنا کیا ہے اور لگے ہوئے ہیں بحث مباحثوں میں۔ تو میں سمجھتا ہوں کہ ایسے مباحثوں کا کوئی نتیجہ نہیں نکلتا ۔بلکہ اور بھی تلخیاں پیدا ہوتی ہیں۔ نوجوانوں کو سمجھنا چاہیے کہ وہ ابھی تک ’’فیوڈل اور قبائلی‘‘ معاشرے میں رہ رہے ہیں۔ان میں’’ انا ‘‘کا ایک بوجھ ہے۔60سال گزر جانے کے باوجودہم اپنی اس انا پر قابو نہیں پا سکے تو نوجوان کیا پائیں گے۔ سوشل میڈیا پر میں نے دیکھا کہ کمنٹس ضرور کرنا ہے۔ بجائے اس کے کہ وہ کمنٹس ایک مثبت پیغام دے۔ وہ غلط تاثر دیتا ہے پھر ہمارے ہر آدمی نے وطن غدار، اسلام غدار، بلوچستان غدار، پہاڑ غداری کے سرٹیفیکٹ ہاتھوں میں لئے ہوئے ہیں اور بانٹتے رہتے ہیں۔یہ ایسا سلسلہ ہے جو بڑھتا چلا جا رہاہے اور اس نے ایک رواج پا لیا ہے۔ اسے ختم کرنے کی ضرورت ہے۔ایسی فضاء کو ختم کرنے کے لئے اچھے استاذوں کی ضرورت ہے۔ یہ ہم سفید ریشوں کا کام ہے کہ ہم نوجوانوں کو گائیڈ کریں۔ استاد بن کر نہیں بلکہ ایک دوست بن کر ۔
س: آج کا نوجوان مطالعے کا کتنا عادی ہے؟
ج:دیکھئے جدید ٹیکنالوجی نے مطالعے کو متاثر توکیا ہے لیکن بلوچستان میں آج بھی نوجوان پڑھتے ہیں کچھ علاقوں میں کم تو کچھ میں اس کی عادت بہت اچھے انداز میں ڈالی گئی ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ پاکستان کے دیگر صوبوں کی نسبت بلوچستان میں مطالعے کی سرگرمیاں اچھے انداز میں ہوتی ہیں۔
س: بلوچی زبان و ادب کتنا ترقی کر چکا ہے؟
ج: وقت کے ساتھ ساتھ یہ شعبہ ترقی کر رہا ہے۔ اچھی چیزوں کو آگے بڑھانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ جس طرح سماج کی ضرورت اور اس کی حد رفتار ہے۔ اسی رفتار سے آگے بڑھ رہا ہے ۔
س:ہم دیکھتے ہیں کہ بلوچستان میں ادب پر کام کرنے والے ادارے موجود ہیں‘ لیکن ان کے درمیان روابط کا فقدان ہے اور دوسرا یہ کہ وہ ایک دوسرے کے پروگراموں میں شرکت نہیں کرتے۔ اس کی کیا وجہ ہے؟
ج:مجھے آپ کے فقرے کا نہیں پتہ کہ ادبی پروگراموں سے کیا مراد ہے۔ جس میں شرکت نہیں ہو رہی یا روابط کا فقدان ہے۔ میرے خیال میں پروگرام ہو ہی نہیں رہے ہیں۔ ایک آدھ اداروں کو چھوڑ کر باقی ہمیں کہیں بھی پروگرام نظر نہیں آتے۔ دوسری بات یہ کہ ہم ’’سرداری نظام ‘‘کے پروردہ لوگ ہیں اور قبائلی نظام سے نکلتے نہیں ہیں۔ جب اس سے نکلیں گے نہیں‘ تب تک انا اور ایک دوسرے کو نظرانداز کرنے کا سلسلہ چلتا رہے گا۔ہمارے معاشرے میں ایک بات عام ہے میں کہتا ہوں کہ جو میں کر رہا ہوں وہی اچھا ہے۔ باقی جو دوسرے کرتے ہیں وہ غلط ہے۔ اس ادارے کو میرے ادارے میں ضم ہونا چاہئے یا اگر وہ نہیں ہوتا تو اسے جینے کا حق نہیں۔ یہ وہ ذہنی اختراع ہیں جو ہمیں ایک دوسرے کے قریب جانے سے روک لیتے ہیں ۔ ان طور طریقوں پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔ سنگت اکیڈمی نے فیصلہ کیا ہے کہ نہ کسی تنظیم میں ضم ہو گی اور نہ ہی کسی ایسے اتحاد کا حصہ بنے گی جو کل اس ادارے کے وجود کے لئے خطرہ ہو۔ میں سمجھتا ہوں کہ کوئی بڑا کام کر رہا ہو یا چھوٹا اپنے حد تک کر تو رہا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے ہم ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کریں ایک دوسرے کو آگے جانے دیں۔ قبضہ گیری کا خیال دل سے نکال دیں۔ دوسری بات یہ کہ فتویٰ بازی سے گریز کرنا چاہئے ۔یہ ایک غلط اقدام ہے۔ اس سے پھر مسائل جنم لیں گے۔
س: ہمارے معاشرے میں ادیب و شاعر ایسے بھی ہیں جو گمنامی کا شکار ہو چکے ہیں۔ ان کے کردار اور خدمات کو دوبارہ سامنے لانے میں کیا کردار ادا کر سکتے ہیں؟
ج: ہم نے کوشش کی ہے کہ کوئی ایسا شخص تاریخ کے آئینے سے رہ نہ جائے جس نے ادب و سماج و سیاست کے لئے اپنی خدمات سرانجام دیں۔ ہم نے پروگرام بھی ترتیب دیئے ۔عشاق کے قافلے ذکر جو میں نے پہلے کیا وہ ابھی ان کرداروں پر مشتمل ہے‘ جنہوں نے ظلم و جبر کے خلاف آواز اٹھائی۔ وہ تاریخ میں کبھی بھی گمنام نہیں ہوں گے۔ ان پر لکھا جائے گا۔ انہیں پڑھا جائے گا۔
س: بلوچستان سنڈے پارٹی کیا ہے؟
ج:یہ ہماری چوتھائی صدی کی ایک نشست ہے۔ پچیس برس پہلے ہم سب یار دوست ہفتہ وار چھٹی کے دن ارباب کرم خان روڑ پر ڈاکٹر خدائیداد کے گھر جمع ہوتے تھے۔ ماما عبداللہ جمالدینی، بدر صاحب، سرور آغا، ڈاکٹر امیر الدین، کبھی کبھی پروفیسر بہادر خان رودینی، پروفیسر نادر قمبرانی۔۔۔۔ ہم وہاں دو ڈھائی گھنٹے کی محفل جماتے، مختلف موضوعات پر بحث مباحثہ کرتے اور پھر اپنے اپنے گھروں کو لوٹ جاتے۔ بعد میں جب میر عبداللہ جان جمالدینی کو فالج ہو گیا تو یہ اجتماع وہاں ان کے گھر فیض آباد سریاب میں منعقد ہونے لگا۔ چونکہ اس زمانے میں ہفت روزہ چھٹی جمعہ کو ہوا کرتی تھی۔ اس لئے اس اجتماع کا نام ماما عبداللہ جان جمالدینی کی بیگم اور ہم سب بزرگ نے ’’ جمعہ پارٹی‘‘ رکھی۔ اسی کو بدل کر ’’ بلوچستان جمعہ پارٹی‘‘ BJPقرار دیا گیا۔ بعد میں جب چھٹی اتوار کو ہونے لگی تو اس کا نام ’’ بلوچستان سنڈے پارٹی‘‘ رکھا گیا۔ یہ نشستیں آج تک جاری و ساری ہیں۔ اب تو بلوچستان سنڈے پارٹی کی ایک منتخب قیادت بھی ہے۔ سنڈے پارٹی کی محفلوں میں بلوچستان بھر سے اور کبھی کبھی پاکستان کے دوسرے علاقوں سے آئے ہوئے دانشور شریک ہوتے ہیں۔
س: آپ نے بلوچستانی سیاستدانوں کے نام لئے بلوچستانی ادب میں کن کن کا کردار متاثرکن رہا؟
ج:ادب کے شعبے میں ہر ایک نے اپنی بساط کے مطابق خدمات سر انجام دی ہیں۔ یہاں میں نام اس لئے نہیں لوں گا کہ اگر کچھ نام رہ جائیں تو بعد میں مجھے دکھ ہوگا۔زندہ لوگوں میں ماما عبداللہ جان جمالدینی ہیں۔ ہم ایک لحاظ سے اسی کے مکتبہ فکر سے تعلق رکھتے ہیں۔1977کے بعد سیاست اور ادب کے شعبے میں میں نے ہر ایک سے سیکھا اور استاد اور شاگرد کا رشتہ برقرار رہا۔
ترتیب وتدوین‘ محمودابڑو
ادیب و دانشور پروفیسر ڈاکٹر شاہ محمد مری سے نشست
وقتِ اشاعت : January 22 – 2016