چائنا پاکستان اکنامک کاریڈور (سی پیک) اس وقت ملک میں زیر بحث ہے جس کی وجہ اس منصوبے کا مغربی راستہ بن گیا ہے جو بلوچستان سے ہوتا ہوا خبیر پختونخوا کے راستے جائے گا۔ سی پیک کے منصوبے کی تجویز مئی 2013 کو دورہ پاکستان کے موقع پر چین کے وزیر اعظم لی کی چیانگ نے دی جس کی منظوری اسی سال جولائی کو وزیر اعظم پاکستان میاں محمد نواز شریف کے دورہ چین کے موقع پر دی گئی جو ان کا وزیر اعظم بننے کے بعد کسی بھی ملک کا پہلا دورہ تھا۔اگست 2014 کو چینی صدر شی چن پنگ کی پاکستان آمد متوقع تھی لیکن حکومتی سطح پر کہا گیا کہ اس وقت تحریک انصاف اور پاکستان عوامی تحریک کے دھرنوں کی وجہ سے ان کا دورہ ملتوی کرنا پڑا۔تاہم اپریل 2015 کو وہ پاکستان آئے اور دونوں ممالک کے درمیان 51 مختلف منصوبوں پر دستخط ہوئے جن میں 30 منصوبے سی پیک کے متعلق تھے جس کی لاگت46 بلین ڈالر لگائی گئی۔اس منصوبے کے تحت بلوچستان کے ضلع گوادر میں 2013 سے چین کے زیر انتظام چلنے والے گوادر بندر گار کو چین کے مشرقی علاقے کاشغر سے ملا کر اسے پاکستان کی چاروں صوبوں کے راستے 3 مختلف راہداریوں کے ذریعے ایک دوسرے سے منسلک کرتے ہوئے چائنا کی دنیا کے نصف سے زائد ممالک تک رسائی کو آسان اور کم فاصلہ بنانا تھا۔منصوبے کے تحت3000 کلومیٹر پر مشتمل اس راہداری کو جہاں جہاں سے گزرنا تھا وہاں موٹروے، ریلوے لائن، اقتصادی زون، این ایل جی لائن گیس، بجلی گھر ، فائبر آپٹک و دیگر سہولیات سے آراستہ کیا جانا ہے اور یہ منصوبہ پاکستان میں روزگار کے وسیع مواقع پید ا کرکے ملکی معیشت کی کایا پلٹ سکتی ہے کیونکہ اس سرمایہ کاری سے پاکستان کا جی ڈی پی 15 فیصد تک بڑھنے کا قوی امکان ہے جبکہ خطے کی جغرافیائی اہمیت بھی بڑھے گی اس لیئے اس منصوبے کو گیم چینجر کا نام دیا گیا۔
چین چونکہ دنیا کا سب سے بڑا تیل درآمد کرنے والا ملک ہے جو آبائے ملاکا کے ذریعے طویل اور دشوار گزار سمندری راستوں کے ذریعے تیل و گیس درآمد کرتا ہے اور انہی راستوں کے ذریعے اپنی مصنوعات دنیا تک پہنچانے کی کوشش کرتا ہے لیکن سی پیک کے ذریعے یہ سب کچھ کرنے پر اسے نہ صرف 6000 ہزار کلو میٹر کی اضافی مسافت سے نجات ملے گی بلکہ وہ اپنی آمد ورفت کے معاملے میں امریکی اثر و رسوخ سے بھی آزاد ہوکر دلجمعی کے ساتھ درآمدات اور برآمدات کی ترسیل کرتا رہے گا۔ عالمی میڈیا اس سارے منصوبے کو چین کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کی تناظر میں دیکھ رہی ہے جس کے مطابق چین گوادر کے ذریعے وسطی اشیاء، بحرہ ہند اور خلیجی ممالک تک آسان رسائی حاصل کرکے اپنی سیاسی و اقتصادی قوت میں اضافہ کررہی ہے۔سی پیک کی معاہدے کے تحت تین راہداریاں منتخب کی گئیں جس کے تحت مغربی راستہ گوادر سے شروع ہوکربلوچستان کے دیگر اضلاع تربت پنجگور، بسیمہ ، قلات، مستونگ، کوئٹہ ، قلعہ سیف اللہ اور ژوب کے راستے خیبر پختونخوا کے علاقے ڈیرہ اسماعیل خان،بنوں، ٹانک اور ملحقہ علاقوں سے ہوتا ہواپنجاب کے علاقوں میانوالی اور حسن ابدال سے اسلام آباد کے ذریعے گلگت بلتستان کے راستے کاشغر تک جائے گی جبکہ درمیانی راستہ گوادر سے شروع ہوکر کوئٹہ اور پھر بسیمہ، خضدار، سکھر راجن پور ، لیہ، مظفر گڑھ، بھکر سے ہوتے ہوئے ڈیرہ اسماعیل خان پہنچ کر مغربی راستے سے منسلک ہوگی اور مشرقی راستہ گوادر بسیمہ خضدار، سکھر ،رحیم یار خان، بہاول پور،ملتان، فیصل آباد، لاہور، اسلام آباد اور مانسہرہ سے گزرگی ۔ چونکہ سی پیک دو ملکوں کا مشترکہ منصوبہ ہے جس کے معاشی اور سیاسی اثرات دیرپا ہوں گے اس لیئے تین راستے منتخب کیئے گئے تاکہ اگر کسی راستے پر گڑ بڑ ہو تو متبادل راستہ استعمال کیا جا سکے۔
پاکستان میں میڈیا رپورٹس اور سینئر اینکر و کالم نگار سلیم صافی کے ذریعے حکومت پاکستان کی جانب سے اس منصوبے کے نقشے اور چین کی جانب سے جاری کیئے گئے نقشے میں فرق اورتمام مجوزہ راستوں کی بجائے مشرقی روٹ کی ترجیحی بنیادوں پر تعمیر کے عام ہونے والی اطلاعات نے سی پیک کی مستقبل پر سوالیہ نشان لگا دیئے کیونکہ اس سلسلے میں شروع ہونے والی بحث اس وقت زور پکڑ رہی ہے جس کے نتیجے میں بلوچستان کی قوم پرست جماعت بلوچستان نیشنل پارٹی(مینگل) کے سربراہ سردار اختر مینگل نے 10 جنوری کو اسلام آباد میں کل جماعتی کانفرنس منعقد کیا جس کے شرکاء نے مشترکہ قرارداد کے ذریعے وزیراعظم پاکستان کی جانب سے 28 مئی 2015 کو کوئٹہ میں منعقد کیئے گئے اے پی سی کے اعلانات پر عملدرآمد کا مطالبہ کرتے ہوئے گوادر پورٹ کو بلوچستان حکومت کے حوالے کرنے اور گوادر پورٹ کی فعالیت کے بعد صوبے کی عوام کو اقلیت میں بدلنے سے بچانے کے لیئے قانون سازی کرنے کا مطالبہ کیا ۔ بلوچستان کے اہم ساحلی علاقے گوادر کی صوبائی اور قومی اسمبلی کی نشستیں رکھنے والی پارٹی بی این پی (مینگل) نے بارہا اس خدشے کا اظہار کیا کہ گوادر کے متعلق معاملات میں صوبے کی سیاسی قیادت ، حتی کہ وزیر اعلیٰ کو بھی اعتماد میں نہیں لیا جا رہا اور سی پیک کے منصوبے سے بھی انھیں لاعلم رکھا جا رہا ہے ۔ دوسری جانب خیبر پختونخوا کے زیر اعلیٰ پرویز خٹک نے بھی سی پیک کے معاملے میں مغربی روٹ کو نظر انداز کرنے پر صدائے احتجاج بلند کرتے ہوئے آل پارٹیز کانفرنس بلانے کا علان کر دیا ۔پیر 04 جنوری کو کے پی کے ہاؤس اسلام آباد میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے الزام عائد کیا کہ سی پیک کا فائدہ صرف پنجاب کو پہنچانے کی کوشش کی جا رہی ہے اس لیئے مغربی روٹ کو سڑک کے علاوہ دیگر سہولیات سے اب تک محروم کیا جا رہا ہے تاہم ان کا کہنا تھا کہ انھیں مشرقی روٹ پر کوئی اعتراض نہیں لیکن حکومت دونوں روٹس کو یکساں بنیادوں پر سہولیات سے آراستہ کرے کیونکہ اگر مغربی روٹ کو بنیادی ڈھانچے سے محروم کیا گیا تو وہاں اقتصادی زون کیسے بنیں گے؟
وفاقی حکومت ان الزامات کو ہمیشہ سے رد کرتے ہوئے اس عزم کو دہراتی رہی ہے کہ وہ سی پیک کا مغربی روٹ سب سے پہلے تعمیر کرے گی جبکہ وفاقی وزیر برائے ترقی و منصوبہ بندی احسن اقبال نے پرویز خٹک کے تحفظات دور کرنے کے لیئے ان سے ملاقات کرکے قائل کرنے کی کوشش کی لیکن ناکام رہے اسی طرح اختر مینگل کے بلائے گئے اے پی سی میں بھی احسن اقبال گئے اور انہوں نے تمام سیاسی رہنماؤں کو بریفنگ دے کر مطمئن کرنے کی کوشش کی لیکن ان کی یہ کوشش ناکام رہی۔قبل ازیں 09 جنوری کو پاکستان میں چینی سفارتخانے نے بھی پاک چین راہداری منصوبے کے متعلق پاکستانی سیاسی قیادت کو متفقہ لائحہ عمل مرتب کرکے اس سلسلے میں اختلافات کو حل کرنے پر زور دیا۔ مختلف حلقوں کی جانب سے یہ سوال اٹھایا جا رہا ہے کہ سی پیک جیسے اہم منصوبے پر بلوچستان، کے پی کے اور سندھ کے سیاسی حلقوں کی جانب سے اٹھنے والی خدشات اور تحفظات کے باوجود حکومت نے متعلقہ آئینی ادارے مشترکہ مفادات کونسل کا اجلاس نہیں بلایا حالانکہ ہر تین ماہ میں اس کا اجلاس بلاناآئینی تقاضا بھی ہے لیکن اس کے باوجود صرف ایک وفاقی وزیر اتنے اہم قومی منصوبے پر میدان میں آکر حکومتی موقف کی دفاع اور اعتراض کرنے والوں سے ملاقاتیں کرنے پر اکتفاء کر رہی ہے جو بظاہر کامیاب ہوتے نظر نہیں آرہے۔بعض حلقے یہ بھی کہتے ہیں کہ اب تک حکومت نے سی پیک کے متعلق قوم کو مکمل طور پرآگاہ تک نہیں جس کے سبب کنفیوژن پیدا ہو رہی ہے۔ دوسری جانب بعض حلقے سمجھتے ہیں کہ اس منصوبے سے پاکستان کی تقدیر بدلنے والی ہے اور چین دوست ملک کی حیثیت سے ایک قوت بن کر ابھرے گی اس لیئے پاکستان دشمن عناصر کو سی پیک ہضم نہیں ہو رہی اور وہ اس سلسلے میں مختلف قیاس آرائیاں پیدا کرکے منصوبے کو متنازعہ بنانے کی کوشش کر رہے ہیں۔تاہم ملک کے اکثر سیاسی رہنماؤں بالخصوص عمران خان، خورشید شاہ، مولانا فضل الرحمن ،اسفند یار ولی خان اور اختر مینگل اس بات پر متفق ہیں کہ چونکہ چین اس منصوبے کے ذریعے اپنے پسماندہ علاقوں کو ترقی کے مواقع فراہم کرکے انھیں ملک کے دیگر حصوں کے برابر لا رہی ہے اس لیئے حکومت پاکستان بھی بلوچستان ، کے پی کے اور سندھ کوترجیح دے کر انھیں ترقی کے نئے سفر میں شامل کرے کیونکہ اگر اس مرتبہ بھی انھیں نظر انداز کیا گیا تو چھوٹے صوبوں میں احسا س محرومیاں بڑھنے کا اندیشہ ہے کیونکہ وہاں پہلے ہی پسماندگی اور احساس محرومی پھیلی ہوئی ہے جس کی واضح مثال بلوچستان سے نکلنے والی گیس اور معدنیات کے مطلوبہ فوائد سے صوبے کی محرومی ہے جس کے سبب صوبے میں ایک دہائی سے مسلح بغاوت جاری ہے جو حقوق کی جنگ سے علیحدگی کی تحریک میں بدل گئی۔