بلوچستان کا ضلع لسبیلہ قیام پاکستان سے قبل ایک ریاست تھی اور پاکستان کے معرض وجود میں آنے کے بعد اسی ریاست دورکے اثرات آج بھی یہاں موجود ہیں بلوچستان کے دیگر بلوچ علاقوں کی طرح یہاں پر قبائلی رسم ورواج،نوابی اور سرداری نظام مضبوطی کے ساتھ قائم ہے لسبیلہ ایک بلوچ علاقہ ہے اوریہاں کے بڑے مقامی قبائل میں رونجھا،شیخ،جاموٹ اور انگاریہ شامل ہیں جنکے اپنے اپنے سردار ہیں پھران قبائل کے ساتھ ساتھ دیگر قبائل اور برادریوں کانواب جام خاندان میں سے ہوتاہے موجودہ وقت میں لسبیلہ کا نواب وفاقی وزیر مملکت پیٹرولیم وقدرتی وسائل جام میرکمال خان ہے جو تمام قبائل کا نواب ہے اس سے قبل جام کمال خان کے والد سابق وزیراعلیٰ بلوچستان جام میرمحمد یوسف مرحوم جنکا شمار بلوچستان کے طاقتورترین نوابوں میں ہوتاتھالسبیلہ کا نواب تھا۔لسبیلہ کی آبادی تقریباًچھ لاکھ سے زائد افراد پر مشتمل ہے اور ضلع بھرمیں ہندوبرادری کی آبادی تقریباً12سے پندرہ ہزار کے لگ بھگ ہے ان میں سے زیادہ ترپڑھے لکھے ہیں لیکن اس کے باوجودہندوبرادری کے لوگ کاروبار سے منسلک ہیں سرکاری اور نیم سرکاری اداروں میں ہندوبرادری کے لوگ آٹے میں نمک کے برابربھی نہیں ہیں کیونکہ ہندوبرادری کو مسلسل اورہردورمیں نظرانداز کیاگیا صرف چندلوگ محکمہ صحت میں ڈاکٹر زتعینات ہوئے ہیں اسکے علاوہ پورے ضلع میں چار ہندواساتذہ ہیں دیگر اداروں میں ہندوبرادری کے لوگ بالکل نہیں ہیں خیال کیا جارہاہے کہ اس وقت بلوچستان میں سب سے زیادہ ہندولسبیلہ میں آبادہیں کیونکہ گزشتہ چندسالوں سے بلوچستان میں امن وامان کی صورتحال انتہائی مخدوش رہی ہے اغواء برائے تاوان،ٹارگٹ کلنگ کے واقعات عام تھے جسکی وجہ سے بلوچستان کے دیگر اضلاع سے ہندوبرادری کے لوگ بہت بڑی تعدادمیں پڑوسی ملک بھارت چلے گئے اور وہاں پر مستقل قیام میں ہی اپنی عافیت سمجھی لسبیلہ کو بلوچستان کے دیگر اضلاع کی نسبت بہت زیادہ پرامن اور پرسکون ضلع تصورکیاجاتاہے لیکن بلوچستان کی مخدوش صورتحال کے اثرات لسبیلہ پربھی پڑے چندسال قبل بیلہ کا معروف ہندوتاجرگنگارام شرماجو اپنی دوکان میں موجود تھا ایک ڈرامائی اندازمیں اغواء ہوگیاجسکو کچھ عرصے بعد ایک بڑے تاوان کے بدلے خضدار کے قریب رہاکردیاگیااس کے علاوہ بیلہ کے معروف سوشل ورکرروی کمارکو بیلہ میں نامعلوم افراد نے سرشام گولیاں مارکر قتل کردیااور کشامل کے گھرمیں ڈکیتی کی واردات کے دوران اسے قتل کردیاگیابیلہ میں ہندوبرادری کے گھروں میں چوری ، ڈکیتی اوردوکانوں کو آگ لگانے کے کئی واقعات رونما ہوچکے ہیں جبکہ اوتھل اور حب میں بھی ایسے کئی واقعات ہوچکے ہیں اس صورتحال کے پیش نظر لسبیلہ میں ہندوبرادری میں خوف اور عدم تحفظ کے آثارنمایاں نظرآنے لگے اور لسبیلہ سے کئی خاندان بھارت منتقل ہوگئے۔لسبیلہ میں سیاسی حوالے سے بھی ہندوبرادری کومسلسل نظرانداز کیا گیا حالانکہ لسبیلہ میں بڑی تعدادمیں ہندوبرادری کے آبادہونے کے باوجود یہاں کے بڑے کاروباری اور طاقتورہندوافرادکو محض ضلع کونسل میں ایک کونسلری کی سیٹ دیکر خاموش کرادیاجاتاجبکہ ضلع لسبیلہ کی نسبت دیگر اضلاع میں جہاں پر ہندوبرادری کے لوگ انتہائی کم تعدادمیں آبادہیں وہاں سے ہندوبرادری کے لوگوں کو سینیٹ،صوبائی اور قومی اسمبلی کا رکن بنادیاگیا جبکہ لسبیلہ کو مسلسل نظرانداز کردیاجاتارہا۔ پرویز مشروف دورکے خاتمے کے بعد بلوچستان کی نگران حکومت میں لسبیلہ کے انتہائی طاقتور اور زیرک سیاستدان سردار محمد صالح بھوتانی کو نگران وزیر اعلیٰ بنادیا گیا جنہوں نے اپنی کابینہ میں لسبیلہ کے ہندومکھی شام لعل لاسی کو پہلی مرتبہ نگران وزیر مقرر کیا یہ قیام پاکستان کے بعد پہلاموقع تھا جب لسبیلہ سے تعلق رکھنے والا مقامی ہندومکھی شام لعل لاسی ایک نگران وزیر بنا جولسبیلہ کے مقامی ہندونوجوانوں نے کبھی سوچابھی نہ تھاکہ یہاں سے ایک ہندووزیربھی بن سکتاہے سردار محمد صالح بھوتانی کے اس فیصلے کے بعد ہندوبرادری میں امیدپیداہوئی کہ اب لسبیلہ میں یہ سلسلہ جاری وساری رہے گالیکن اس کے بعد یہ سلسلہ رک گیا ۔
موجودہ دور میں بھی لسبیلہ سے ایک سینیٹر اشوک کماررتنانی اور رکن صوبائی اسمبلی گھنشام داس مدوانی موجو د ہیں جنکو لسبیلہ کا ظاہرکرکے نیشنل پارٹی کے ٹکٹ پرسینیٹ اور صوبائی اسمبلی میں بھیج دیا گیا حالانکہ انکا تعلق صوبہ سندھ سے ہے اور چندسال قبل لسبیلہ میں آکر آبادہونے والوں کو اقتدار کے ایوانوں میں پہنچادیاگیا جبکہ یہاں کی مقامی ہندوآبادی کو حسب روایت نظرانداز کردیا گیااس صورتحال کو دیکھ کر لسبیلہ کی ہندوبرادری میں مایوسی کی لہردوڑگئی۔ لسبیلہ میں قیام پاکستان کے بعد شخصی سیاست چلی آرہی ہے یہاں پر کوئی پارٹی نہیں یہاں کے سیاستدان آزاد حیثیت سے الیکشن جیت کر پھر اکثریتی پارٹی میں شامل ہوکر اقتدار کے مزے لوٹنے کی روایت کو برقرار رکھے ہوئے ہیں ۔
گزشتہ دنوں اوتھل سے ہندوبرادری لیلانی قبیلے سے تعلق رکھنے والے سابق نگران وزیروہندوپنچائیت کے سربراہ مکھی شام لعل لاسی نے پہلی بار لسبیلہ کی روایتی سیاست کے پرخچے اڑاکر جمعیت علمائے اسلام (فضل الرحمن گروپ) میں شمولیت اختیار کرلی ہے اس حوالے سے گزشتہ روز ضلعی ہیڈکوارٹر اوتھل میں مکھی شام لعل لاسی کے ایم ایس سی فارم میں شمولیتی تقریب منعقدکی گئی جس میں ڈپٹی چیئرمین سینیٹ وجمعیت علمائے اسلام کے مرکزی جنرل سیکرٹری مولانا عبدالغفور حیدری،جے یوآئی بلوچستان کے صوبائی امیرمولانا فیض محمد،جنرل سیکرٹری ملک سکندر خان ایڈوکیٹ،سابق گورنربلوچستان سیدفضل آغا،جسٹس(ر)عبدالقادر مینگل،قبائلی رہنمامیریونس عزیرزہری سمیت جے یوآئی لسبیلہ کے عہدیداران وممبران اورہندوبرادری لسبیلہ کے اہم رہنما ؤں نے شرکت کی اور پہلی بار لسبیلہ میں جے یوآئی کے جھنڈے ہندونوجوان اٹھاکر شہرمیں ریلیاں نکال کرنعرے بازی کرتے رہے جس کو لسبیلہ کے سیاسی حلقے لسبیلہ کی سیاست میں اہم اور خوشگوار تبدیلی قرار دے رہے ہیں اورمستقبل میں لسبیلہ کی روایتی سیاست کیلئے خطرہ اور علاقائی ترقی میں اہم پیش رفت سمجھاجارہاہے۔ شمولیتی تقریب سے ڈپٹی چیئرمین سینیٹ ومرکزی جنرل سیکرٹری جمعیت علمائے اسلام مولاناعبدالغفور حیدری نے خطاب کرتے ہوئے کہاکہ جب مجھے بتایاگیا کہ لسبیلہ کی ہندوبرادری کی انتہائی معتبرشخصیت وسابق نگران وزیر مکھی شام لعل لاسی جے یوآئی میں شامل ہونا چاہتے ہیں تو مجھے فکرلاحق ہوگئی کہ لسبیلہ میں جہاں پرہمیشہ سے روایتی سیاست چلی آرہی ہے کہیں ایسانہ ہوکہ مکھی شام لعل لاسی جے یوآئی میں شامل ہوجائیں تو انہیں مختلف قبائلی،سیاسی دباؤاور دیگر پریشانیوں میں مبتلانہ کردیاجائے لیکن پھرمجھے خیال آیا کہ ایسانہیں ہوگا کیونکہ بلوچستان کی اقلیتی برادری بہت بہادر اور اپنے کئے ہوئے فیصلوں پر ثابت قدم رہنے کیلئے مشہور ہے مولاناعبدالغفور حیدری نے کہا کہ لسبیلہ سے مکھی شام لعل لاسی کاجمعیت میں شامل ہونا ایک مثبت آغازہے اور جمعیت کے منشور میں یہ بات شامل ہے کہ مسلمانوں کے ساتھ ساتھ اقلیتی برادری کے مسائل اور ان جان ومال کے تحفظ کو یقینی بنانے کیلئے ہرفورم پر آوازبلندکریں گے انہوں نے کہا کہ مجھے قوی امیدہے کہ مکھی شام لعل لاسی اب جمعیت علمائے اسلام کے پلیٹ فارم سے نہ صرف لسبیلہ بلکہ پورے بلوچستان کی ہندوبرادری کو متحدومنظم کرنے اور انکے مسائل کے حل کیلئے جدوجہدکریں گے کیونکہ مکھی شام لعل لاسی کوہندوبرادری میں انتہائی عزت واحترام کی نگاہ سے دیکھاجاتاہے۔ جے یوآئی بلوچستان کے امیرمولانا فیض محمد نے خطاب کرتے ہوئے کہاکہ بلوچستان کی ہندوبرادری قیام پاکستان سے پہلے یہاں پر مقیم ہے اور یہ یہاں پر بڑے امن سے رہ رہے ہیں کبھی مسلمانوں کو نہ ان سے تکلیف ہوئی اور نہ ہی ان کو مسلمانوں سے کوئی تکلیف ہوئی حالانکہ دنیامیں اس وقت مذہب کے نام پر لوگوں کو لڑایاجارہاہے اور مختلف مذاہب کے درمیان نفرتوں کو فروغ دینے کیلئے پروپیگنڈہ کیا جارہاہے ایسے وقت میں بلوچستان کے انتہائی اہم ضلع لسبیلہ سے مکھی شام لعل لاسی کا جے یوآئی میں شمولیت کرنا نیک شگون ہے اور انکی شمولیت سے جمعیت کو مزید تقویت ملے گی اور ہم دنیاپر یہ باور کرانا چاہتے ہیں کہ ہمارے ملک میں مذہبی ہم آہنگی موجودہے اور یہاں کے لوگ ایسی کسی سازش کو کامیاب نہیں ہونے دینگے ۔
سابق گورنربلوچستان فضل آغانے تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ انسانیت اور اخلاقیت کو مدنظر رکھتے ہوئے میں ہندوبرادری کو اقلیت نہیں کہتاکیونکہ تمام انسان برابرہیں اور ہمارے ملک میں تمام مذاہب کو مکمل آزادی حاصل ہے ہمارے حقوق برابرہیں مجھے امیدہے کہ مکھی شام لعل لاسی جے یوآئی کے لیڈران کے ساتھ ملکر نہ صرف ہندوبرادری بلکہ بلوچستان کے اکثریتی پسماندہ عوام کے حقوق کیلئے آواز بلندکرکے ملک کی تعمیروترقی کیلئے اپنی تمام ترصلاحیتوں کو بروئے کارلائیں گے ۔
لسبیلہ کی ہندوبرادری اورروایتی سیاست میں تبدیلی کا آغاز
وقتِ اشاعت : January 24 – 2016